Anwar-ul-Bayan - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو عمل تم کرتے ہو میں ان سے واقف ہوں
(23:51) یایھا الرسل۔ اے (میرے ) پیغمبر و۔ اے (میرے ) رسولو۔ یہ خطاب کس سے ہے۔ اس میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) یہ خطاب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ہے۔ کیونکہ آیت متصلہ (نمبر 50) میں ان کا ذکر ہے۔ (2) یہ خطاب نبی کریم حضرت محمد ﷺ سے ہے۔ اور جمع کا صیغہ تعظیماً لایا گیا ہے۔ (3) یہ خطاب نبی کریم ﷺ کے بعد آنے والے نبیوں سے ہے۔ (4) یہ خطاب تمام انبیاء کی طرف ہے۔ اس ضمن میں علامہ مودودی کا وضاحتی نوٹ ملاحظہ ہو :۔ پچھلے دورکوعوں میں متعدد انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یایھا الرسل کہہ کر تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سارے پیغمبر یکجا موجود تھے۔ اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا ۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کو یہی تعلیم و ہدایت کی گئی تھی اور سب کے سب اختلاف زمانہ ومقام کے باوجود ایک ہی حکم کے مخاطب تھے۔ بعد کی آیت میں چونکہ تمام انبیاء کو ایک امت ایک جماعت ایک گروہ قرار دیا گیا اس لئے طرز بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھینچ جائے گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دی جارہی ہے ۔ مگر اس طرز کلام کی لطافت اس دور کے بعض کند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آسکی اور وہ اس سے یہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب حضرت نبی کریم محمد مصطفیٰ ﷺ کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور ﷺ کے بعد بھی سلسلہ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے تعجب ہے کہ جو لوگ زبان وادب کے ذوق لطیف سے اس قدر کو رہے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرات کرتے ہیں ۔ یعنی مرزائی قادیانی گروہ اس آیت سے غلط استدلال کرتے ہیں۔
Top