Kashf-ur-Rahman - Al-Ankaboot : 7
فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ
فَمَنِ : پس جو ابْتَغٰى : چاہے وَرَآءَ : سوا ذٰلِكَ : اس فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْعٰدُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں
(23:7) ابتغی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ابتغاء (افتعال) مصدر۔ اس نے چاہا اس نے تلاش کیا۔ ورائ۔ وراء مصدر ہے لیکن اس کے معنی ہیں آڑ۔ حد فاصل ۔ کسی چیز کا آگے ہونا پیچھے ہونا۔ علاوہ۔ سوا ہونا۔ فصل اور حد بندی پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے ان سب معنی میں مستعمل ہے۔ العدون۔ عدو سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جمع مذکر۔ عادون اصل میں عادو ون تھا۔ وائو کلمہ میں چوتھی جگہ آیا ہے۔ اور ماقبل مکسور ہونے کی وجہ سے اس کو ی سے تبدیل کیا تو عادیون یوا۔ ی پر ضمہ دشوار ہونے کی وجہ سے نقل کر کے ماقبل کو دیا۔ اب دو ساکن جمع ہوگئے یعنی ی اور وائو۔ ی کو حذف کیا۔ عادون ہوگیا۔ عدو کے معنی حد سے تجاز کرنے کے ہیں لہٰذا عادون حد سے گذرنے والے۔ حد سے بڑھنے والے۔ حد سے نکلنے والے۔
Top