Anwar-ul-Bayan - An-Noor : 4
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ
وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن عورتیں ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا : پھر وہ نہ لائیں بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاجْلِدُوْهُمْ : تو تم انہیں کوڑے مارو ثَمٰنِيْنَ : اسی جَلْدَةً : کوڑے وَّلَا تَقْبَلُوْا : اور تم نہ قبول کرو لَهُمْ : ان کی شَهَادَةً : گواہی اَبَدًا : کبھی وَاُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا الزام لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو اور یہی بد کردار ہیں
(24:4) یرمون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ رمی یرمی (ضرب) رمی ورمایۃ مصدر بمعنی پھینکنا۔ مادی چیزوں مثلاً تیر وغیرہ کے متعلق ہو تو اپنے اصلی معنوں میں اس کا مفہوم ہوتا ہے مثلاً وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی (8:17) اے پیغمبر جب تو نے تیر چلائے تو تم نے تیر نہیں چلائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تیر چلائے۔ لیکن جب اقوال کے متعلق ہو تو ” قذف “ کی طرح اس کے معنی تہمت طرازی کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آیت ہذا میں یا آگے آیت نمبر 9 میں۔ یرمون وہ تہمت لگاتے ہیں۔ المحصنت۔ پاکدامن عورتیں۔ اسم مفعول جمع مؤنث۔ ثعلب نے کہا ہے کہ پاکدامن عورت کو محصنۃ (اسم فاعل) بھی کہا جاتا ہے اور محصنۃ (اسم مفعول) بھی۔ اور شوہر والی کو محصنۃ (اسم مفعول) کہیں گے ۔ کیونکہ اس کی حفاظت اس کا شوہر کرتا ہے ۔ یعنی وہ شوہر کی حفاظت میں ہوتی ہے (نیز ملاحظہ ہو 4:24) ۔
Top