Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 4
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ اِ۟فْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ ھٰذَآ : نہیں یہ اِلَّآ : مگر۔ صرف اِفْكُ : بہتان۔ من گھڑت افْتَرٰىهُ : اس نے سے گھڑ لیا وَاَعَانَهٗ : ور اس کی مدد کی عَلَيْهِ : اس پر قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ : دوسرے لوگ (جمع) فَقَدْ جَآءُوْ : تحقیق وہ آگئے ظُلْمًا : ظلم وَّزُوْرًا : اور جھوٹ
اور کافر کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) من گھڑت باتیں ہیں جو اس (مدعی رسالت) نے بنا لی ہیں اور لوگوں نے اس میں اس کی مدد کی ہے یہ لوگ (ایسا کہنے سے) ظلم اور جھوٹ پر (اتر) آئے ہیں
(25:4) ان ھذا۔ میں ان نافیہ ہے۔ اور ھذا کا مشار الیہ القرآن ہے۔ افک۔ الافک ہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو اسی بنا پر ان ہوائوں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں موتفکۃ کہا جاتا ہے۔ اور جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوا ہوتا ہے اس لئے جھوٹ اور بہتان کو بھی افک کہتے ہیں۔ افترہ۔ ماضی واحد مذکر غائب افتری یفتری افتراء (افتعال) سے ہ ضمیر واحد مذکر غائب اس کا مرجع افک ہے ۔ وہ جھوٹ جو اس نے گھڑ لیا ہے۔ افتراء جھوٹ باندھنا۔ بہتان تراشنا۔ ضمیر فاعل نبی کریم ﷺ کی طرف راجع ہے۔ اعان کی ضمیر فاعل قوم اخرون کی طرف راجع ہے علیہ میں ضمیر ہ افک کے لئے ہے۔ یعنی اس افترا میں اس کی (نبی کریم ﷺ کی) امداد ایک دوسری قوم نے کی ہے۔ جاء وا۔ ماضی جمع مذکر غائب (باب ضرب) مجیئۃ مصدر۔ وہ آئے ۔ لیکن کلام عرب میں جاء واتی (مصدر اتیان) بمعنی فعل بھی مستعمل ہے۔ فقد جاء وا ظلما۔ ای فعلوہ۔ انہوں نے بڑا ظلم کیا۔ ظلما منصوب بوجہ مفعول کے ہوا اور تنوین تفخیم (عظمت اور بڑائی۔ یعنی ظلم عظیم کے لئے ہے۔ اتی بمعنی فعل کی مثال لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا۔۔ (3:188) ہرگز خیال نہ کرو ان لوگوں کو جو اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں (کہ وہ عذاب سے حفاظت میں رہیں گے) یہاں اتوا بمعنی فعلوا آیا ہے۔ الظلم کے معنی اہل لغت و اکثر علما کے نزدیک کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنے کے ہیں۔ زورا۔ الزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونے کے ہیں اور جس کے سینہ میں ٹیڑھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے وتری الشمس اذا طلعت تز اور عن کھفہم (18:17) اور تو دیکھے گا سورج کو جب وہ ابھرتا ہے کہ وہ ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے۔ تز اور عنہ۔ اس نے اس سے پہلو تہی کی۔ اس سے ایک جانب ہٹ گیا۔ اور جھوٹ بھی چونکہ جہت حق سے ہٹا ہوا ہوتا ہے اس لئے اس کو بھی الزور کہتے ہیں۔ زورا۔ بہت بڑا جھوٹ۔ نصب اور تنوین کے لئے جاء وا کے تحت ظلما ملاحظہ ہو۔
Top