Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 118
فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ فَتْحًا وَّ نَجِّنِیْ وَ مَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
فَافْتَحْ : پس فیصلہ کردے بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان فَتْحًا : ایک کھلا فیصلہ وَّنَجِّنِيْ : اور نجات دے مجھے وَمَنْ : اور جو مَّعِيَ : میرے ساتھی مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
سو تو میرے اور انکے درمیان ایک کھلا فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو میرے ساتھ ہیں ان کو بچا لے
(26:118) افتح۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر تو فیصلہ کر دے۔ الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں خواہ اس ازالہ کا ادراک ظاہری آنکھ سے ہو سکے یا اس کا ادراک بصیرت سے ہو مثلاً ولما فتحوا متاعھم (12:65) اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا۔ یا لفتحنا علیہم برکات من السماء والارض (7:96) تو ہم نے ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دئیے۔ یعنی ان کو ہر طرح آسودگی اور فارغ البالی کی نعمت سے نوازتے۔ فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملہ کا فیصلہ کردیا۔ اور اس سے مشکل اور پیدگی کو دور کردیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق (7:89) اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے اسی سے الفتاح العلیم (34:26) ہے یعنی خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا۔ الفاتحہ ہر چیز کے مبداء کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة الفاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے افتح فلان کذا فلاں نے یہ کام شروع کیا۔ نجنی۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضرنی ضمیر مفعول واحد متکلم۔ تو مجھے بجات دے۔
Top