Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 13
وَ یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَ لَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ
وَيَضِيْقُ : اور تنگ ہوتا ہے صَدْرِيْ : میرا سینہ (دل) وَلَا يَنْطَلِقُ : اور نہیں چلتی لِسَانِيْ : میری زبان فَاَرْسِلْ : پس پیغام بھیج اِلٰى : طرف هٰرُوْنَ : ہارون
اور میرا دل تنگ ہوتا ہے اور میری زبان رکتی ہے تو ہارون کو حکم بھیج کے میرے ساتھ چلیں
(26:13) ویضیق صدری : یضیق مضارع واحد مذکر غائب ضیق مصدر (باب ضرب) تنگ ہوتا ہے۔ گھٹتا ہے (یعنی اتنے بڑے مشن پر تنہا جائے ہوئے گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے ۔ ( تفہیم القرآن) ۔ لا ینطلق مضارع منفی واحد مذکر غائب طلق مادہ الطلاق کے اصل معنی کسی بندھن سے آزاد کرنے کے ہیں جیسے اطلقت البعیر من عقالہ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا۔ اسی طرح طلقت المزأۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزاد کردیا۔ باب انفعال سے انطلاق کے معنی چل پڑنے کے ہیں جیسے انطلقوا الی ما کنتم بہ تکذبون ۔ (77:29) جس چیز کو تم جھٹلایا کرتے تھے اب اس کی طرف چلو۔ لاینطلق۔ وہ روانی سے نہیں چلتی۔ فارسل الی ہارون : ای ارسل جبریل (علیہ السلام) الی ہارون واجعلہ نبیا وازرنی بہ واشدد بہ عضدی لان فی الارسال الیہ (علیہ السلام) حصول ھذہ الاغراض کلہا لکن بسط فی سورة القصص وطہ واکتفی ھھنا بالاصل۔ یعنی اے میرے پروردگار تو جبرائیل (علیہ السلام) کو ہارون کی طرف بھیج اور اسے بھی نبوت عطا کر اور اس کی مدد سے مجھے طاقت بخش اور میری قوت بازو کو مضبوط بنا جبرائیل (علیہ السلام) کو اس کی طرف بھیجنے میں یہ جملہ اغراض مقصود تھیں۔ سورة قصص اور طہ میں اس کا بالتفصیل ذکر ہے یہاں صرف اصل پر اکتفا کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تو ہارون (علیہ السلام) کے پاس بھی وحی بھیج دے (اور اسے بھی شریک نبوت کر دے) ۔
Top