Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 167
قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ
قَالُوْا : بولے وہ لَئِنْ : اگر لَّمْ تَنْتَهِ : تم باز نہ آئے يٰلُوْطُ : اے لوط لَتَكُوْنَنَّ : البتہ ضرور تم ہوگے مِنَ : سے الْمُخْرَجِيْنَ : مخرج (نکالے جانے والے
وہ کہنے لگے کہ لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کر دئیے جاؤ گے
(26:167) لم تنتہ تو باز نہیں آئے گا۔ ملاحظہ ہو 26:116 ۔ المخرجین اسم مفعول جمع مذکر مجرور معرف باللام اخراج مصدر نکالے گئے۔ نکالے ہوئے ۔ ملک بدر کئے جانے والے۔ القالین۔ اسم فاعل جمع مذکر بحالت جر القالی واحد بیزار ہونے والے۔ چھوڑنے والے۔ اصل میں اس کا مادہ واوی ہے قلو جس کا معنی ہے پھینکنا۔ محاورہ ہے قالت الناقۃ براکبھا۔ اونٹنی نے اپنے سوار کو پھینک دیا۔ جس چیز سے دل بوجہ بغض یا بوجہ ناپسندیدہ ہونے کے اس طرح گھن گھائے گویا اسے پھینک رہا ہے تو اسے مقلو کہا جائے گا۔ پھینک دینے میں نفرت اور بیزاری کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے ۔ لہٰذا القالین کے معنی ہوئے بیزار ہونے والے۔ چھوڑنے والے۔ پھینکنے والے۔ انی لعلکم من القالین ۔ میں تمہارے فعل سے بیزار ہوں۔ قلا یقلی (ضرب) اور قلایقلو (نصر) ہر دو سے سورت میں مستعمل ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ماودعک ربک وما قلی (93:3) (اے محمد ﷺ ) تمہارے پروردگار نے نہ تو تم کو چھوڑا ہے اور نہ تم سے بیزار ہے۔ اگر مادہ قلی ناقص یائی مانا جئے تو بھوننے کے معنی ہوں گے جیسے قلیت السویق بالمقلاۃ میں نے کڑھائی میں ستو بھونے لیکن قرآن مجید میں اسے ناقص واوی ہی استعمال کیا گیا ہے۔
Top