Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 205
اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا تم نے دیکھا ؟ اِنْ : اگر مَّتَّعْنٰهُمْ : ہم انہیں فائدہ پہنچائیں سِنِيْنَ : کئی برس۔ برسوں
بھلا دیکھو تو اگر ہم ان کو برسوں فائدے دیتے رہے
(26:205) افرأیت۔ کیا تو نے دیکھا۔ بھل اتو نے دیکھا۔ کیا تو نے غور کیا۔ ہمزہ اولیٰ بلفظ استفہام تقریر و تنبیہ کے لئے ہے محض استفہام کے لئے نہیں۔ امام راغب (رح) لکھتے ہیں کہ ارأیت عربی میں اخبرنی (تو مجھے بتا) کے قائم مقام ہے اور اس پر ک داخل ہوتا ہے اور تاء کو تثنیہ جمع اور تانیث میں اسی کی حالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور تغیر و تبدل کاف پر ہوتا ہے تاء پر نہیں ۔ مثلا ارایتک ھذا الذی (17:62) قل ارایتکم (6:40) متعنھم ماضی جمع متکلم ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ متع یمتع تمیع (تفعیل) ہم نے دنیاوی سازوسامان دے کر بہرہ مند کیا سنین : سنۃ کی جمع ۔ کئی سال۔ بھلا بتاؤ تو اگر ہم سالوں ان کو دنیاوی عیش و عشرت کا مزہ اٹھانے دیں پھر جس عذاب کا وعدہ ان سے کیا تھا۔ وہ ان پر آجائے تو وہ عیش و عشرت ان کے کس کام کا ؟ آیت 202 میں ان کے جواب میں یہ کہا گیا کہ اب نہ مہلت ملنے کا وقت ہے اور نہ قبول ایمان کا ۔ آیت نمبر 205، 206، 207 ۔ تم نے دیکھ لیا کہ دنیاوی عیش و عشرت تمہارے کسی کام نہ آیا۔ آیت نمبر 204 جملہ معترضہ ہے اور ارشاد من جانب اللہ تعالیٰ ہے آیت نمبر 205 سے پھر وہی سلسلہ کلام ہے جو کہ آیت 202 میں تھا۔
Top