Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 76
اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ٘ۖ
اَنْتُمْ : تم وَاٰبَآؤُكُمُ : اور تمہارے باپ دادا الْاَقْدَمُوْنَ : پہلے
تم بھی اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی
(26:76) الاقدمون ۔ : اقدم کی جمع ہے اقدم افعل التفضیل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ قدم سے جس کے معنی آگے ہونے اور سبقت کرنے کے ہیں۔ یعنی تم سے اگلے اور پہلے لوگ۔ فانھم عدولی۔ بیشک یہ میرے دشمن ہیں کیونکہ اگر میں اب ان کی عبادت کرتا ہوں تو یوم قیامت ان کی پرستش مجھے عذاب عظیم میں مبتلا کر دے گی۔ یا یہ مرے دشمن بایں وجہ ہیں کہ اس دنیا میں ان کی پرستش گمراہی اور شرک کے دروازے کھول رہی ہے جو انجام کار تباہی اور بربادی کا باعث بنے گی۔ وقیل ھو من المقلوب المراد فانی عدولہم۔ یا یہ ترکیب مقلوب ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ میں ان کا دشمن ہوں۔ عدو۔ انھم کی خبر ہے قاعدہ کے لحاظ سے یہ جمع (اعدائ) چاہیے لیکن عدو کا لفظ صدیق کی طرح واحد اور جمع دونوں کے لئے آتا ہے جیسا اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے انہ لکم عدو مبین (2:168) وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے اور وھم لکم عدو (18:50) درآں حالیکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ عدو اسم جنس بھی ہوسکتا ہے۔ انھم میں ضمیر ھم جمع مذکر غائب کا مرجع ما ہے۔ (ما کنتم تعبدون) الا رب العلمین ۔ : الا حرف استثناء ہے رب العالمین مستثنیٰ اور انھم میں ضمیر ھم جمع مذکر غائب مستثنیٰ منہ۔ کیونکہ مستثنیٰ ، مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہیں ہے لہٰذا یہ استثناء منقطع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ : جن بتوں کی تم پرستش کیا کرتے ہو وہ میرے دشمن ہیں۔ لیکن رب العالمین میرا دشمن نہیں۔
Top