بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 1
طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِیْنٍۙ
طٰسٓ : طا۔ سین تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْقُرْاٰنِ : قرآن وَكِتَابٍ : اور کتاب مُّبِيْنٍ : روشن واضح
طس، یہ قرآن اور کتاب روشن کی آیتیں ہیں
(27:1) طس۔ حروف مقطعات ہیں۔ تلک : ای ھذہ۔ سورة ہذا کی طرف اشارہ ہے۔ ایت القران۔ مضاف مضاف الیہ ۔ قران : قرأت الشیء قرانا کے معنی ہیں جمعتہ وضممت بعضہ الی بعض۔ میں نے اس چیز کو اکٹھا کیا اور اس میں نظم پیدا کیا۔ اور ارأت الکتاب کے معنی ہیں میں نے کتاب کو پڑھا ۔ گویا قرآن کے معنی ہیں وہ کتاب جس میں تمام صداقتیں اکٹھی کردی گئی ہوں اور جس میں ہر ایک حصہ کو دوسرے حصہ کے ساتھ ایسا نظم و ربط ہو کہ وہ تمام ایک مجموعہ نظر آئے وکتاب مبین میں واؤعاطف کی ہے۔ کتاب مبین موصوف و صفت مل کر آیات کا مضاف الیہ ہے کیونکہ کتاب مبین کا عطف القرآن پر ہے کعب احدی الصفتین علی الاخری جیسا کہ دو صفتوں میں سے ایک کا دوسرے پر عطف ہو مثلا ھذا فعل السخی والجواد الکریم۔ یہ قرآن اور ایک واضح کتاب کی آیات ہیں۔ یہاں قرآن کو معرفہ اور کتاب کو نکرہ لایا گیا ہے لیکن سورة الحجر میں قرآن کو نکرہ اور کتاب کو معرفہ کیا گیا ہے ارشاد ہے تلک ایت الکتاب وقران مبین (15:1) اس کی کیا وجہ ہے۔ اس کا جواب دیا گیا ہے کہ قرآن اور کتاب کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دونوں اس کلام الٰہی کے علم (نام) ہیں جو حضور پر نور ﷺ پر نازل ہوا۔ دوسری یہ کہ یہ اس کلام کی صفتیں ہیں یعنی قرآن سے مراد مقرو (پڑھا جانے والا) اور کتاب سے مکتوب جو لکھا جاتا ہے جہاں انہیں معرفہ ذکر کیا جائے گا وہاں یہ بحیثیت علم (نام) مذکور ہیں اور جہاں نکرہ وہاں بحیثیت صفت (مظہری) ۔ بعض نے کتاب مبین سے لوح محفوظ مراد لی ہے اور اس کی تنکیر عظمت شان کے لئے ہے۔ (ضیاء القرآن)
Top