Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 88
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ
وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْجِبَالَ : پہاڑ (جمع) تَحْسَبُهَا : تو خیال کرتا ہے انہیں جَامِدَةً : جما ہوا وَّهِىَ : اور وہ تَمُرُّ : چلیں گے مَرَّ السَّحَابِ : بادلوں کی طرح چلنا صُنْعَ اللّٰهِ : اللہ کی کاری گری الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَتْقَنَ : خوبی سے بنایا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّهٗ : بیشک وہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو تو خیال کرتے ہو کہ (اپنی جگہ پر) کھڑے ہیں مگر وہ (اس روز) اس طرح اڑے پھریں گے جیسے بادل (یہ) خدا کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا بیشک وہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے
(27:88) تری ماضی بمعنی مستقبل۔ تو دیکھے گا۔ تحسبھا۔ تحسب مضارع واحد مذکر حاضر تو گمان کرے گا۔ تو خیال کریگا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب پہاڑوں کی طرف راجع ہے تو ان پہاڑوں کو خیال کرے گا۔ جامدۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث جمود سے جن کے معنی جمنے اور ٹھہرنے کے ہیں۔ جمی ہوئی۔ ٹھہری ہوئی۔ وہی۔ میں واؤ حالیہ ہے ہی ضمیر واحد مؤنث غائب پہاڑوں کی طرف راجع ہے۔ تمر مضارع واحد مؤنث غائب مرور مصدر (باب نصر) وہ چلتی ہے وہ چل رہی ہے ۔ رواں ہے۔ مرالسحاب مجاف ، مضاف الیہ بادلوں کی چال۔ منصوب بوجہ مفعول مطلق ہونے کے۔ صنع اللہ۔ مضاف ضاف الیہ اللہ کی کاریگری۔ صنع، صنع، یصنع کا مصدر ہے باب فتح۔ بمعنی کاریگری۔ نکوئی کرنا۔ الصنع کے معنی کسی کام (کمال مہارت سے) اچھی طرح کرنے کے ہیں۔ اس لئے ہر صنع کو فعل تو کہہ سکتے ہیں لین ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے۔ صنع یہاں بطور مصدر مؤکد کے آیا ہے جیسے لک علی الف درھم عرفا بمعنی اعترف لک بھا اعترافا ہے اور یہاں صنع اللہ بمعنی صنع اللہ تعالیٰ ذلک صنعا ہے۔ اسے نحو کی اصطلاح میں المصدر المؤکد لنفسہ کہتے ہیں۔ اس کی اور مثالیں صبغۃ اللہ (2:138) اور وعد اللہ (30:6) ملاحظہ ہوں۔ الذی : ای اللہ۔ اتقن ماضی واحد مذکر غائب اتقان (افعال) مصدر۔ تقن مادہ اس نے درست کیا۔ اس نے مضبوط کیا۔ یاد رہے تسیر الجبال (پہاڑوں کا رواں ہونا) اس کی اتقان صنعت کے منافی نہیں ہے کیونکہ اتقان کی حقیقت یہ ہے کہ ہر شے کی حکمت کے مطابق بنایا جائے۔ (پھر اس حکمت کے مطابق بنی ہوئی اشیاء سے جن افعال کا صدور ملحوظ رکھا گیا ہے ان کے صدور میں سرمو فرق نہ آنے پائے) پس جب حکمت تسیر کی متقاضی ہو تو تسیر بھی عین اتقان ہوگا۔
Top