Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 10
وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا١ؕ اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَاَصْبَحَ : اور ہوگیا فُؤَادُ : دل اُمِّ مُوْسٰى : موسیٰ کی ماں فٰرِغًا : صبر سے خالی (بیقرار) اِنْ : تحقیق كَادَتْ : قریب تھا لَتُبْدِيْ : کہ ظاہر کردیتی بِهٖ : اس کو لَوْلَآ : اگر نہ ہوتا اَنْ رَّبَطْنَا : کہ گرہ لگاتے ہم عَلٰي قَلْبِهَا : اس کے دل پر لِتَكُوْنَ : کہ وہ رہے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور موسیٰ کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کردیتے تو قریب تھا کہ وہ اس (قصے) کو ظاہر کردیں غرض یہ تھی کہ وہ مومنوں میں رہیں
(28:10) اصح ۔۔ فارغا : ای صار خالیا من کل شیء غیر ذکر موسیٰ علیہ السلام۔ حضرت موسیٰ کی یاد اور اس کے خیال کے سوا ہر چیز سے خالی ہوگیا۔ الفراغ۔ یہ شغل کی ضد ہے فرغ یفرغ فروغا۔ خالی ہونا۔ فارغ خالی۔ افرغت الدلو کے معنی ڈول سے پانی بہا کر اسے خالی کردینا کے ہیں اور استعارہ اسی سے ہے افرغ علینا صبرا (2:250) ہم پر صبر کے دہانے کھول دے۔ ان کا دت میں ان ان سے مخفف ہے اور لتبدی بہ میں لام الفارقہ ہے اور بہ میں ہ ضمیر مجرور راجع بسوئے موسیٰ (علیہ السلام) ہے ان کا دت ای انھا کا دت۔ ھا ضمیر قصہ ان کا اسم ہے۔ قریب تھا کہ وہ موسیٰ (کے راز) کو ظاہر کردیتی۔ لالا۔ امتناعیہ ہے۔ لو حرف شرط۔ اور لا نافیہ سے مرکب ہے۔ اگر نہ ہوتا۔ ان مصدریہ ہے لولا ان ربطنا علی قلبھا۔ یعنی اگر ہماری طرف سے اس کو تقویت قلب نہ ملتی۔ ربطنا علی قلبھا : ربطنا ماضی جمع متکلم ربط مصدر۔ (باب نصر، ضرب) حفاظت کے لئے مضبوط باندھنا ۔ ربط الفرس۔ گھوڑے کو حفاظت کے لئے کسی جگہ پر باندھ دینا۔ اسی سے ہے رباط الجیش۔ فوج کا کسی جگہ پر متعین کرنا۔ وہ مقام جہاں حفاظتی دستے متعین رہتے ہوں اسے رباط کہا جاتا ہے۔ ربط اللہ علی قلبہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو قوت بخشی اور صبر عطا کیا۔ لہٰذا جملہ کا ترجمہ ہوگا۔ اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے اور اسے صبر عطا نہ کرتے۔ لولا کا جواب محذوف ہے ای لولا ان ربطنا علی قلبھا لابدتہ اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے تو وہ اسے (یعنی موسیٰ کے راز کو) ضرور ظاہر کردیتی۔ لتکون من المؤمنین۔ یہ علت ہے ربط علی القلب کی۔ لام تعلیل کا ہے تکون مضارع واحد مؤنث غائب ضمیر کا مرجع ام موسیٰ ہے۔ تاکہ وہ بنی رہے یقین کرنے والوں میں سے۔ یہاں ایمان سے مراد یقین و تصدیق ہے۔ یعنی ہم نے اس کے دل کو مضبوط رکھا اور اسے صبر عطا فرمایا تاکہ وہ ہمارے اس وعدہ پر راسخ القلب اور راسخ الیقین رہے۔ کہ ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی طرف لوٹا دیں گے۔ اور ہم اس کو رسولوں میں سے بنائیں گے۔
Top