Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 24
فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ
فَسَقٰى : تو اس نے پانی پلایا لَهُمَا : ان کے لیے ثُمَّ تَوَلّيٰٓ : پھر وہ پھر آیا اِلَى الظِّلِّ : سایہ کی طرف فَقَالَ : پھر عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں لِمَآ : اس کا جو اَنْزَلْتَ : تو اتارے اِلَيَّ : میری طرف مِنْ خَيْرٍ : کوئی بھلائی (نعمت) فَقِيْرٌ : محتاج
تو موسیٰ نے ان کے لئے (بکریوں کو) پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف چلے گئے اور کہنے لگے کہ پروردگار میں محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے
(28:24) فسقی لہما ای فسقی غنمھما لاجلہما اس نے ان دونوں کی طرف سے ان کے ریوڑ کو پانی پلایا۔ تولی۔ وہ پھر آیا۔ وہ واپس مڑا۔ اس نے منہ موڑا۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ تولی باب تفعل سے۔ ولی مادہ۔ رب یا ربی۔ اے میرے پروردگار۔ فقیر۔ محتاج ۔ رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر : ای رب انی فقیر لما انزلت الی من خیر۔ فقیر۔ ان کی خبر ہے ما موصوف نکرہ اور اس کے بعد کا جملہ انزلت الی من خیر صفت دونوں مل کر متعلق خبر۔ اس آیت کے کئی معنی ہوسکتے ہیں :۔ (1) لما۔ بمعنی لای شیئ۔ یعنی میں تیری ہر اس نعمت کا جو تو مجھے عطا کرے محتاج ہوں (جمہور) (2) لما میں لام تعلیل کا بھی ہوسکتا ہے اس اعتبار سے معنی ہوں گے۔ تو نے مجھ پر اس قدر انعام کئے ہیں بایں سبب میں تیرے انعامات کا اور محتاج ہوگیا ہوں۔ یعنی ہر انعام جو تو مجھ پر کرتا ہے میری تشنگی کو اور بڑھاتا ہے (شوکانی) (3) میں واقعی اس خیر و برکت کا محتاج ہوں جو تو نے میری طرف اتاری ہے۔ (ضیاء القرآن) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا کی یہ وجوہات ہوسکتی ہیں :۔ (1) حضرت موسیٰ کا طویل سفر کے بعد بھوکا پیاسا اور تھکا ماندہ ہونا بالکل قدرتی امر تھا۔ آپ سایہ میں آکر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ سے رزق کے لئے دعا کی (ماجدی) (2) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا بھوک اور پیاس کی بےچینی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ فرعون سے نجات پر اظہار تشکر کے طور پر تھی۔
Top