Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 36
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : آیا ان کے پاس مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : ہماری نشانیوں کے ساتھ بَيِّنٰتٍ : کھلی۔ واضح قَالُوْا : وہ بولے مَا هٰذَآ : نہیں ہے یہ اِلَّا : مگر سِحْرٌ : ایک جادو مُّفْتَرًى : افترا کیا ہوا وَّ : اور مَا سَمِعْنَا : نہیں سنا ہے ہم نے بِهٰذَا : یہ۔ ایسی بات فِيْٓ : میں اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِيْنَ : اپنے اگلے باپ دادا
اور جب موسیٰ ان کے پاس ہماری کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے جو اس نے بنا کھڑا کیا ہے اور یہ (باتیں) ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو (کبھی) سنیں نہیں
(28:36) بایتنا بینت۔ ب حرف جر۔ ایتنا۔ مضاف مضاف الیہ۔ بینت صفت آیات کی۔ جاء ب لے کر آیا۔ ہماری روشن اور واضح نشانیاں لے کر آیا۔ ما ھذا میں ما نافیہ ہے۔ سحر۔ موصوف صفت۔ مفتری۔ اسم مفعول افتراء (افتعال) مصدر خود ساختہ۔ گھڑا ہوا (جھوٹ) سحر تختلقہ لم یفعل قبلہ مثلہ۔ جھوٹ جو گھڑا گیا ہو اور قبل ازیں اس جیسا عمل میں نہ لایا گیا ہو۔ بھذا۔ میں باء زائدہ ہے ھذا سے مراد یا جادو ہے (جو نام انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو دیا) یا اس سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دعوی نبوت ہے یہ سمعنا کا مفعول ہے۔ فی ابائنا الاولین : فی بمعنی واقعا فی ایامہم (ان کے وقتوں میں وقوع پذیر ہونے والا۔ ابائنا۔ مضاف مضاف الیہ الاولین اباء کی صفت۔ عبارت کچھ یوں ہوگی۔ ما سمعنا بھذا جائنا او واقعا فی ایام ابائنا الاولین ہم نے اپنے پہلے آباء و اجداد کے زمانہ میں ایسی کوئی بات وقوع پذیر ہوتے نہیں سنی۔
Top