Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 75
وَ نَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا فَقُلْنَا هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوْۤا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰهِ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠   ۧ
وَنَزَعْنَا : اور ہم نکال کر لائینگے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت شَهِيْدًا : ایک گواہ فَقُلْنَا : پھر ہم کہیں گے هَاتُوْا : تم لاؤ (پیش کرو) بُرْهَانَكُمْ : اپنی دلیل فَعَلِمُوْٓا : سو وہ جان لیں گے اَنَّ : کہ الْحَقَّ : سچی بات لِلّٰهِ : اللہ کی وَضَلَّ : اور گم ہوجائیں گی عَنْهُمْ : ان سے مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : جو وہ گھڑتے تھے
اور ہم ہر ایک امت میں سے گواہ نکالیں گے پھر کہیں گے کہ اپنی دلیل پیش کرو تو وہ جان لیں گے کہ سچ بات خدا کی ہے اور جو وہ افترا کیا کرتے تھے ان سے جاتا رہے گا
(28:75) نزعنا۔ ماضی جمع متکلم۔ نزع (فتح) مصدر ہم نکال لیں گے (ماضی بمعنی مستقبل) نزع الشیء کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں۔ یا باہر نکال لانا۔ اس کا عطف ینادیہم پر ہے ای یوم نزعنا ۔۔ شھیدا۔ شاہد۔ گواہ۔ جو ان کے متعلق شہادت دے کر وہ کیا کرتے رہے ہیں دنیا میں ۔ مراد یہاں انبیاء (علیہم السلام) ہیں جو جو اپنی اپنی امت کے کفر پر گواہی دیں گے۔ فقلنا ھاتوا برھانکم۔ فا ضمیر جمع متکلم۔ اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور مخاطبین امتیں ہیں۔ ای فقلنا لکل من تلک الامم ان امتوں میں سے ہر ایک سے ہم کہیں گے کہ لاؤ اپنی کوئی دلیل یا عذر (یعنی اپنی صفائی میں تم بھی کوئی دلیل پیش کرو) ھاتوا۔ اسم فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاجر ۔ تم لاؤ۔ تم پیش کرو۔ ان الحق للہ کے معنی دو ہوسکتے ہیں :۔ (1) ان الحق فی الا لوھیۃ للہ۔ بیشک خدائی کا حق صرف اللہ کو ہے۔ (2) بیشک سچی بات اللہ ہی کی تھی۔ ضل عنھم ماکانوا یفترون : ضل عن گم ہوجانا۔ غائب ہوجانا۔ ضائع ہوجانا ما موصولہ ہے۔ کانوا یفترون۔ وہ افترا باندھا کرتے تھے۔ وہ دروغ باقی کیا کرتے تھے۔ وہ بہتان باندھا کرتے تھے ۔ یعنی وہ من گھڑت جھوٹے سہارے جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے۔ سب ان سے غائب ہوجائیں گے۔ اور کنارہ کر جائیں گے۔ اور کوئی بھی ان کے کام نہ آئے گا۔ فبغی علیہم : البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں میانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا خواہ وہ تجاوز ہوسکے یا نہ ۔ بغی کا استعمال محمود اور مذموم ہر دو قسم کے تجاوز کے لئے ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں اکثر جگہ مذموم کے معنی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ بغی علی۔ مذموم معنی میں آیا ہے کسی پر تعدی کرنا۔ کسی کے ساتھ زیادتی کرنا۔ مثلاً فان بغت احدھما علی الاخری (49:9) اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے۔ انہی معنوں میں اس کا استعمال آیت ہذا میں ہے۔ فبغی علیہم۔ یعنی قارون نے قوم موسیٰ یعنی بنی اسرائیل (جن میں سے وہ کود بھی تھا) سے تعدی اور تکبر سے پیش آتا تھا۔ الکنوز۔ کنز کی جمع ۔ خزانے۔ بکشرت جمع کیا ہوا۔ مال۔ سونا۔ چاندی۔ کنز مصدر بھی ہے کنز یکنز (ضرب) سے۔ جس کے معنی ہیں دولت جمع کرکے اسے محفوظ رکھنا۔ یہ عربی محاورہ ہے کنزت المترفی الوعاء (میں نے کھجوروں کو برتن میں بھر کر محفوظ کرلیا۔ سے مشتق ہے۔ حدیث شریف میں ہے کل مال لا یؤدی زکوتہ فھو کنز۔ جس مال کی زکوۃ نہ دی جائے وہ کنز ہے۔ ما ان مفاتحہ۔ میں ما بمعنی الذی۔ موصولہ ہے۔ مفاتحہ ان کا اسم اور لتنوء بالعصبۃ اولی القوۃ۔ خبر ہے ان کی۔ مفاتحہ مضاف مجاف الیہ ای مفاتح صنادیقہ یہ مفتح کی جمع ہے وہ آلہ جس سے صندوق کے تالے کو کھولا جائے بمعنی مفاتیح جس کی واحد مفتاح ہے یا یہ مفتح (جمع کیا ہوا خزانہ) کی جمع ہے۔ ترجمہ : کہ جس کے تالوں کی چابیاں ّاپنے بوجھ سے) ایک طاقت ود جتھے (کی کمروں) کو جھکا دیتی تھیں۔ لتنوء ب مضارع واحد مؤنث غائب۔ ناء ینوء (نصر) نوء وتنواء سے بمعنی بھاری ہونا۔ یا بوجھ کے مارے گرے جانا۔ باء تعدیہ کے لئے ہے جیسے ذھبت بہ یعنی (اپنے بوجھ سے) جھکا دینا۔ گرا دینا۔ لام تاکید کے لئے ہے۔ العصبۃ۔ جماعت۔ گروہ۔ جتھہ۔ اولی القوۃ : اولی۔ والے ۔ بحالت نصب و جر۔ اولوا بحالت رفع۔ جمع ہے اس کا واحد نہیں آتا۔ قوت والے۔ طاقت ور۔ زور آور۔ اذ قال لہ قومہ : ای اذکر اذ قال لہ قومہ۔ لا تفرح فعل نہی۔ واحد مذکر حاضر۔ تو مت خوش ہو۔ تو مت اتراء فرح (باب سمع) مصدر۔ الفرحین : فرح کی جمع ۔ حالت نصب بوجہ مفعول۔ خوش ۔ اترانے والے۔
Top