Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 60
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ١ۖ٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ دَآبَّةٍ : جانور جو لَّا تَحْمِلُ : نہیں اٹھاتے رِزْقَهَا : اپنی روزی اَللّٰهُ : اللہ يَرْزُقُهَا : انہیں روزی دیتا ہے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں بھی وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور بہت سے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے خدا ہی ان کو رزق دیتا ہے اور تم کو بھی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
(29:60) کاین۔ اسم ہے جو کاف تشبیہ اور ای سے مرکب ہے۔ تعداد میں کثرت ظاہر کرنے کے لئے تمیز کا محتاج ہوتا ہے اور اس کی تمیز بیشتر من کے ساتھ مجرور ہوتی ہے جیسے وکاین من نبی قتل معہ ربیون کثیر (3:146) اور کہتے ہی نبی ہوچکے ہیں کہ ان کی معیت میں بہت اللہ والوں نے (کافروں سے) لڑائی کی۔ اس مثال میں کاین نے کثیر تعداد کو طاہر کیا۔ لیکن کس کی ” یہ بات “ مبہم تھی۔ جب اس کے بعد من نبی آیا تو ابہام دور ہوگیا۔ اور معلوم ہوگیا کہ یہ کثیر تعداد نبیوں کی تھی ! اور جگہ قرآن مجید میں ہے فکاین من قریۃ اہلکناھا وہی ظالمۃ (22:45) غرض کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر ڈالا ہو نافرمان تھیں۔ کاین کتنی ہی۔ بہت سی۔ بہت تعداد میں۔ پس وکاین من دابۃ ۔۔ اور کتنے ہی جانور ہیں جو ۔۔ دابۃ۔ جانور۔ رینگنے والا۔ پاؤں دھرنے والا۔ دب یدب (ضرب) دب ودبیب آہستہ آہستہ چلنا۔ اور رینگنا۔ سانپ کی طرح رینگنا۔ بچہ کی طرح ہاتھ پیروں پر گھسٹنا۔ دابۃ اسم فاعل کا صیغہ ہے مذکر مؤنث دونوں کے لئے مستعمل ہیں اس میں تاء وحدت کی ہے اس کی جمع دواب ہے۔ ہر رینگنے والے جانور ، سواری کے جانور۔ باربرداری کے جانور کے لئے استعمال ہوتا ہے زیادہ تر حشرات الارض کے لئے آتا ہے۔ فانی یؤفکون ۔ترتیب کا ہے یا جواب شرط میں ہے جو مقدرہ ہے۔ ای اذا کان الامر کذلک فکیف یصرفون عن الاقرار بتفردہ عز وجل فی الالوہیۃ۔ جب امر واقع یہ ہے کہ یہ لوگ توحید الٰہی کے اقرار سے کیوں مدد گرداں ہیں۔ انی۔ اسم ظرف ہے زمان و مکان دونوں کے لئے آتا ہے طرف زمان ہو تو متی کے معنوں میں (جب ، جس وقت) اور ظرف مکان ہو تو این کے معنوں میں (جہاں۔ کہاں 9 اور استفامیہ ہو تو کیف کے معنوں میں (کیسے، کیونکر) آتا ہے۔ افک یافک افکا (باب ضرب) سے۔ الافک ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کہ اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤتفکۃ کہا جاتا ہے۔ اور قرآن مجید میں مؤتفکات الٹنے والی بستیوں کو کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی (جب ان کو الٹ دے مارا گیا) اپنا اصلی رخ چھوڑ کر الٹی ہوگئی تھیں۔ پس فانی یؤفکون کا مطلب ہوا کہ وہ کدھر پھیرے جا رہے ہیں کہاں بہکے پھرتے ہیں۔ ان کی قسمت کیسی الٹی ہوگئی ہے کہ اعتقاد حق سے باطل کی طرف۔ سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں۔ مجہول کا صیغہ ان کی بدقسمتی کی شدت کو ظاہر کرنے کے لئے لایا گیا ہے یعنی ایک معمولی عقل کا مالک بھی جو اپنے نفع و نقصان کا معمولی سا احساس رکھتا ہو یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا۔ لیکن ان کی بدقسمتی ان کو باوجود حق و باطل کو سمجھ لینے کے بھی قعر مذلت کی طرف لئے جا رہی ہے۔
Top