Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 76
بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
بَلٰي : کیوں نہیں ؟ مَنْ : جو اَوْفٰى : پورا کرے بِعَهْدِهٖ : اپنا اقرار وَاتَّقٰى : اور پرہیزگار رہے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
ہاں جو شخص اپنے اقرار کو پورا کرے اور (خدا سے) ڈرے تو خدا ڈرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
(3:76) بلی۔ حرف ۔ ہاں۔ الف اس میں اصلی ہے بعض کہتے ہیں کہ زائد ہے۔ اصل میں بل تھا۔ بلی کا استعمال دو جگہ پر ہوتا ہے : (1) نفی ما قبل کی تردید کے لئے جیسے زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا قل بلی وربی لتبعثن (64:7) کافروں کو خیال ہے کہ وہ ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے تو کہہ دے کیوں نہیں قسم ہے میرے رب کی تمہیں ضرور اٹھایا جائے گا۔ (2) یہ کہ اس استفہام کے جواب میں آئے جو نفی پر واقع ہے۔ خواہ استفہام حقیقی ہو جیسے الیس زید بقائم کیا زید کھڑا نہیں۔ جواب میں کہا جائیگا بلی۔ ہاں یعنی کھڑا ہے۔ یا استفہام تو بیخی ہو جیسے ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ ۔ بلی قادرین علی ان نسوی بنانہ (75:403) کیا انسان گمان کرتا ہے کہ ہم ہرگز اس کی ہڈیاں جمع نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں بلکہ ہم قدرت رکھتے ہیں کہ اس کی پورپور درست کردیں۔ یا استفاہم تقریری ہو۔ جیسے الست بربکم قالوا بلی شھدنا (7:172) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا ہاں (تو ہی ہے) ہم گواہ ہیں۔ نعم اور بلی میں فرق یہ ہے کہ نعم استفہام مجرد کے جواب میں آتا ہے۔ اور بلی بالاتفاق ایجاب کے جواب میں نہیں آتا۔ بلکہ اس استفہام کے جواب میں آتا ہے جو مقرن (متصل) بنفی ہو۔ نیز بلی ابطال کی مثال۔ اور نعم کی مثال۔ فہل وجدتم مادعد ربکم حقا قالوا نعم۔ اوفی۔ ایفاء سے ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے پورا کیا۔
Top