Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا
اِذْ : جب جَآءُوْكُمْ : وہ تم پر آئے مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر وَمِنْ اَسْفَلَ : اور نیچے سے مِنْكُمْ : تمہارے وَاِذْ : اور جب زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : کج ہوئیں (چندھیا گئیں) آنکھیں وَبَلَغَتِ : اور پہنچ گئے الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الْحَنَاجِرَ : گلے وَتَظُنُّوْنَ : اور تم گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الظُّنُوْنَا : بہت سے گمان
جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل (مارے دہشت کے) گلوں تک پہنچ گئے اور تم خدا کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے
(33:10) من فوقکم۔ تمہارے اوپر کی طرف یعنی مشرق کی طرف سے۔ من اسفل منکم تمہارے نیچے کی طرف سے یعنی مغرب کی طرف سے۔ (مدینہ کی شرقی سمت اونچی ہے اور غربی سمت نیچی) اسفل افعل التفضیل کا صیغہ ہے اور غیر منصرف لہٰذا لام پر کسرہ کی بجائے فتح ہے۔ بمعنی سب سے نیچا۔ اعلی کی ضد ہے اور سفول مصدر۔ سفل پستی۔ فسل یسفل (کرم) اور سفل یسفل (نصر) سے بمعنی ادنی ہونا۔ کمینہ ہونا۔ پست کے معنوں میں اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے وجعل کلمۃ الذین کفروا السفلی اور کافروں کی بات کو پست کردیا۔ اور ادنی اور کمینہ کے معنوں میں : ثم رددناہ اسفل سافلین (96:5) پھر ہم نے (رفتہ رفتہ) اس کی حالت کو (بدل کر) پست سے پست کردیا۔ زاغت۔ ماضی واحد مؤنث غائب زیغ (ضرب) سے مصدر۔ زیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں۔ اذا زاغت الابصار جب آنکھیں اپنی ھالت استقامت سے پھر گئیں ۔ بوجہ دہشت و حیرت کے یا دوسری تمام چیزوں سے ہٹ کر دشمن پر مزکور ہونے کی وجہ سے۔ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔ پتھرا گئی تھیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم (61:5) جب وہ (ازخود) صحیح راہ سے ہٹ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا۔ بلغت القلوب الحناجر۔ اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے۔ الحناجر حنجرۃ کی جمع ہے۔ حلق ، گلہ، نرخرہ، حنجر مادہ۔ تظنون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ یہاں مضارع بمعنی ماضٰ آیا ہے ۔ تم گمان کرنے لگے تھے۔ ظن (باب نصر) سے مصدر۔ باللہ میں باء الصاق کی ہے۔ اللہ کے بارے میں۔ اللہ کے متعلق ۔ اللہ کے ساتھ۔ الظنونا ۔ ظنون ظن کی جمع ہے اور الف اشباع کا ہے (یعنی الف کے ما قبل حرف کی حرکت کو پوری طرح ادا کرنے کے لئے الف کا لانا حالانکہ وہاں کی ضرورت نہ ہے یہاں الظنون میں بھی درست تھا۔ مثال : ان اباھا وابا اباھا قد بلغا فی المجد غایتاھا۔ غایتاھا اصل میں غایتھا ہے الف راعایت شعری کے لئے لایا گیا ہے۔ ترجمہ : تحقیق ان کے باپ اور ان کے باپ کا باپ بزرگی کی انتہاء کو پہنچ گئے ہیں) الظنون کے متعلق روح المعانی میں ہے الظنون جمع الظن وھو مصدر شامل للقلیل والکثیر وانما جمع للدلالۃ علی تعدد انواعہ۔ (ظنون جمع ظن کی ہے اور ظن گو مصدر ہے اور قلیل و کثیر سب کو شامل ہے تاہم جمع کو اس لئے لایا گیا ہے کہ اس کے متعدد انواع پر دلالت کرے۔ لھذا وتظنون باللہ الظنونا۔ اور تم لوگ اللہ کے متعلق طرح طرح کے گمان کر رہے تھے۔ مخاطبین میں مخلص اور راسخ الایمان اور منافقین سب شامل ہیں۔ گوہر فرقے کی سوچ مختلف تھی اور اندیشے بھی مختلف تھے۔
Top