Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
(33:36) ماکان لمؤمن۔ مومن مرد کا حق نہیں ہے۔ مومن مرد کے لئے یہ درست نہیں ہے۔ قضی۔ ماضی واحد مذکر غائب، قضا وقضاء مصدر۔ قولا یا عملا کسی کام کا فیصلہ کردینا۔ اس کی چار اقسام ہوسکتی ہیں۔ (1) قضاء قولی (الٰہی) ۔ (2) قضاء قولی (بشری) ۔ (3) قضاء عملی (الٰہی) قضاء ارادی (الٰہی ) بھی ہوسکتا ہے۔ (4) قضاء عملی (بشری) ۔ (1) قضاء قولی (الٰہی) کی مثال :۔ وقضی ربک ان لا تعبدوا الا ایاہ (1 7:23) اور تمہارے پروردگار نے ارشاد نے فرمایا۔ کہ اس کے سوا کو کی عبادت نہ کرو۔ (2) قضاء قولی (بشری) کی مثال قضی الحاکم بکذا۔ حاکم نے فلاں فیصلہ کیا۔ (3) قضاء عملی (الٰہی) کی مثال :۔ واللہ یقضی بالحق والذین یدعون من دونہ لا یقضون بشیء (40:20) اور خدا سچائی کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی حکم نہیں دے سکتے۔ (4) قضاء عملی (بشری) فاذا قضیتم مناسککم (2:200) پھر جب تم حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ! اور بعض نے اس کی مندرجہ ذیل تین صورتیں تصور کی ہیں ! مثلاً (1 7:23) نمبر (1) مندرجہ بالا۔ (ب) بمعنی الخبر مثلاً وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتب لتفسدن فی الارض مرتین (1 7:4) اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ خبر کردی تھی کہ تم ملک میں دو بار بڑی خرابی پیدا کروگے۔ (ج) صفۃ الفعل اذا تم : فعل کی صفت جب اس فعل کو ختم کردیا جائے یا اس کے متعلق آخری فیصلہ کردیا جائے۔ مثلاً فقضہن سبع سموت فی یومین پھر دور وز میں اس نے سات آسمان بنا دئیے (صلات کے اختلاف اور سیاق کی مناسبت سے مختلف معانی مراد ہوتے ہیں) واذا قضی اللہ ورسولہ امرا جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ فرما دے۔ الخیرۃ۔ اختیار ۔ خار یخیر کا مصدر ہے (باب ضرب) انتخاب کرنا۔ دو چیزوں میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا اختیار ہونا۔ الخیرۃ مؤنث غیرحقیقی ہے لہٰذا اس کا فعل یکون (بصیغہ مذکر ) آیا ہے۔ گو بعض ق راتوں میں تکون (تاء تانیث کے ساتھ بھی آیا ہے) ۔ لہم میں ضمیر جمع مذکر غائب ہے جو مومن ومؤمنۃ کی طرف راجع ہے۔ چونکہ مومن اور مومنہ سے مراد (جملہ مومنین مومنات) ہیں اس لئے معنی کی رعایت سے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ امرہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا حکم، ان کا فیصلہ۔ ان کا معاملہ۔ ہم ضمیر کا مرجع اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہیں جمع کا صیغہ تعظیما لایا گیا ہے۔ جملہ کا ترجمہ یوں ہوگا : جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ فرمادیں تو کسی مومن مرد یا مومن عورت کو حق نہیں پہنچتا کہ ان کے فیصلہ میں اپنی مرضی سے کام لیں۔ یا اپنا اختیار استعمال کریں) ۔ من شرطیہ ہے۔ یعص مضارع مجزوم (اصل میں یعصی تھا۔ من شرطیہ کی وجہ سے ی ساقط ہوگئی) صیغہ واحد مذکر غائب۔ من یعص۔ جو نافرمانی کرے گا۔ عصیان مصدر (باب ضرب) ۔ فقد ضل ضلالا مبینا۔ میںسببیت کے لئے ہے قد حرف ہے اور ماضی پر آکر اسے ماضی قریب کا معنوں میں کردیتا ہے۔ نیز ماضی کے ساتھ یہ تحقیق کے معنی دیتا ہے ۔ ضلالا یہ ضل کا مصدر ہے اور فعل کے بعد تاکید کے لئے گیا ہے۔ مبینا۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ ابانۃ مصدر سے۔ بین مادہ صریح۔ ظاہر۔ ظاہر کرنے والا۔ کھول دینے والا۔ یہاں ضلالا کی صفت میں آیا ہے اور موصوف کی مناسبت سے منصوب ہے۔ تو وہ بیشک صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
Top