Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 38
مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ١ؕ سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا٘ۙ
مَا كَانَ : نہیں ہے عَلَي النَّبِيِّ : نبی پر مِنْ حَرَجٍ : کوئی حرج فِيْمَا : اس میں جو فَرَضَ اللّٰهُ : مقرر کیا اللہ نے لَهٗ ۭ : اس کے لیے سُنَّةَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور فِي : میں الَّذِيْنَ : وہ جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلُ ۭ : پہلے وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم قَدَرًا : مقرر کیا ہوا مَّقْدُوْرَۨا : اندازہ سے
پیغمبر ﷺ پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے انکے لئے مقرر کردیا اور جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی خدا کا یہی دستور رہا ہے اور خدا کا حکم ٹھہر چکا تھا
(33:38) فرض : ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب فرض مصدر (باب ضرب) الفرض کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں۔ مثلاً لکڑی کا ٹنا یا لکڑی چھید کرنا۔ قرآنی اصطلاح میں اس کے کئی معنی آئے ہیں۔ (1) مقرر کرنا۔ معین کرنا۔ مثلاً وقد فرضتم لہن فریضۃ (2:237) لیکن تم ان کے لئے کچھ مہر مقرر کرچکے ہو۔ (2) کسی چیز کا کسی پر واجب کرنا۔ (اگر مفعول دائم پر علی آئے) مثلاً ان الذی فرض علیک القران (28:75) (اے پیغمبر) جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے یعنی اس پر عمل کرنا تجھ پر لازم کیا ہے۔ (3) عزم کرنا۔ اپنے اوپر لازم کرلینا مثلاً فمن فرض فیھن الحج فلا رفث ولا فسوق ولاجدال فی الحج (2: 1 97) اور ان میں جو کوئی اپنے اوپر حج لازم کرلے تو پھر حج (کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برے کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے (4) کسی چیز سے بندش دور کرنا اور اسے مباح کردینا۔ اجازت دینا (بشرطیکہ اس کے بعد لام آئے) مثلاً آیۃ ہذا ما کان علی النبی من حرج فیما فرض اللہ لہ (33:38) جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (علیہ الصلوٰۃ والسلام ) کو اجازت دے دی یعنی اس پر سے بندش دور کر کے اسے مباح کردیا اس کے کرنے میں نبی کو کوئی مضائقہ نہیں۔ روح المعانی میں : فیما فرض اللہ لہ کئے ہیں قسم لہ۔ اس کے لئے مقرر کردیا اور لکھا ہے ومنہ فروض العساکر اور اسی سے ہے فوج کی تنخواہیں مقرر کرنا۔ مارما ڈیوک پکٹھال نے ترجمہ کیا ہے۔ وہ جسے اللہ نے اس کا حق مقرر کردیا ہے۔ آیۃ شریفہ قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم (66:2) میں بھی فرض لہ اجازت دینے کے معنی میں آیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی قسموں کا کفارہ ادا کر کے ان کی پابندیوں سے خلاصی کی اجازت دے دی ہے۔ فرائض اللہ سے مراد وہ احکام ہیں جن کے متعلق قطعی حکم دیا گیا ہے۔ سنۃ اللہ۔ ای سن اللہ تعالیٰ ذلک سنۃ یہ اللہ کا مقرر کردہ طریقہ ہے سنۃ منصوب فعل مقدر کا مصدر ہے خلوا۔ خلا یخلوا (باب نصر) سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ خلوا وہ گذر چکے۔ وہ ہوچکے۔ ضمیر جمع مذکر غائب اسم موصول الذین کی طرف راجع ہے مراد پیغمبران (علیہم السلام) جو آنحضرت ﷺ سے پہلے گذر چکے تھے۔ ای من قبلک من الانبیا (علیہم السلام) یعنی یہی سنت انبیاء سابقہ کی تھی کہ انہیں جس امر کی اجازت ہوتی وہ بلا تامل کر گذرتے۔ قدرا مقدورا۔ قدرا سے مراد کسی چیز کی ماہیت کے متعلق ارادہ ازلی۔ مقدورا کو قدر کی صفت میں تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے وندخلہم ظلا ظلیلا (4:57) اور ان کو ہم گھنے سائے میں داخل کریں گے۔ قدرا مقدورا ایسا اندازہ شدہ امر کہ اس کے پہلو کسی مصلحت، کسی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا گیا جملہ کا مطلب ہوگا اور اللہ کا حکم خوب تجویز کیا ہوا ہوتا ہے
Top