Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 58
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے ہیں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن مرد (جمع) وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتیں بِغَيْرِ : بغیر مَا اكْتَسَبُوْا : کہ انہوں نے کمایا (کیا) فَقَدِ احْتَمَلُوْا : البتہ انہوں نے اٹھایا بُهْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا
(33:58) بغیر ما اکتسبوا۔ با حرف جر ما موصولہ ہے۔ اکتسبوا صلہ۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب یہاں مومنین ومومنت کے لئے آیا ہے۔ اکتسب وکسب دونوں کسب سے مشتق ہیں۔ پہلا باب افتعال سے (اکتساب) مصدر اور دوسرا (باب ضرب) سے کسب مصدر۔ دونوں بمعنی کمانا۔ حاصل کرنا۔ فائدہ میں پانا کے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ کسب سے مراد جو فعل خیر یا جلب نفع کے قبیل سے ہو اور اکتساب سے مراد ہر وہ نفع ہے جو انسان اپنی ذات کے لئے حاصل کرتا ہے بشرطیکہ اس کا حصول اس کے لئے جائز ہو۔ اول الذکر میں کامیابی و ناکامی کی صورت میں کرنے والا ثواب کا مستحق ہوتا ہے، اور موخر الذکر میں ناکامی کی صورت میں وبال کرنے والے پر ہوگا۔ بعض کے نزدیک کسب اچھے فعل کے لئے اور اکتساب فعل مذموم کے لئے ہے لیکن قرآن مجید میں دونوں طرح کے کام انجام دینے کے لئے باب افتعال سے استعمال ہوا ہے۔ باب افتعال کے خواص میں سے ایک خاصیت تصرف ہے یعنی تحصیل ماخذ میں کوشش کرنا۔ مثلاً اکتسب العلم۔ اس نے کوشش سے علم حاصل کیا۔ یعنی تحصیل علم میں اس کے ارادہ و قدرت کو بھی دخل ہے۔ لہٰذا نیک کام خواہ بلا ارادہ و قدرت کیا جائے موجب ثواب ہے لیکن فعل مذموم صرف اس صورت میں موجب سزا ہوگا جب اس کی انجام دہی میں ارادہ و قدرت کو بھی دخل ہو۔ اسی طرح آیت لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت (2:286) کے معنی ہوں گے ہر نفس جو اچھے کام کرے گا (ارادۃ یا غیر ارادی طور پر) اس کا اس کو ثواب ملے گا اور ہر نفس جو برا کام (ارادۃ اور کوشش کر کے) کرے گا۔ اس کا مآل اس کے خلاف ہوگا ! آیت ہذا میں ما اکتسبوا کے معنی ہوں گے وہ فعل جو انہوں نے کوشش سے ارادۃ کیا ہو۔ والذین یوذون المومنین اور جو لوگ مومنین اور مومنات کو ایذا دیتے ہیں بغیر ان کے کسی ایسے فعل کے ارتکاب کے جو انہوں نے ارادۃ کیا ہو اور جس کی وجہ سے وہ اس ایذا کے مستحق ہوگئے ہوں۔ احتملوا۔ ماضی جمع مذکر غائب احتمال (افتعال) مصدر۔ انہوں نے اٹھایا۔ انہوں نے اپنے سر لیا۔ بھتانا۔ بھت یبھت باب فتح کا مصدر ہے۔ منصوب بوجہ ضمیر فاعل احتملوا کا مفعول ہونے کے ہے۔ کسی پر بہتان لگانا۔ بھت یبھت (باب سمع) حیران و ششدر رہ جانا۔ ہکا بکا رہ جانا یا کردینا۔ مثلاً فبھت الذی کفر (2:258) (یہ سن کر) وہ کافر حیران رہ گیا۔ بھتان ای الکذب الذی یبھت الشخص لفظاعتہ ایسا جھوٹ جو اپنی قباحت سے سننے والے کو ہکا بکا کر دے۔ احتملوا بھتانا وہ بہتان کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں۔ اٹھاتے ہیں۔ واثما مبینا۔ وائو عاطفہ ہے اثما مبینا موصوف وصفت مل کر بھتانا کا معطوف اور ظاہر گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
Top