بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Faatir : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ؕ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاطِرِ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین جَاعِلِ : بنانے والا الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے رُسُلًا : پیغامبر اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ : پروں والے مَّثْنٰى : دو دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ ۭ : اور چار چار يَزِيْدُ : زیادہ کردیتا ہے فِي الْخَلْقِ : پیدائش میں مَا يَشَآءُ ۭ : جو وہ چاہے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے
سب تعریف خدا ہی کو (سزاوار ہے) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (اور) فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں وہ (اپنی) مخلوقات میں جو چاہتا ہے بڑھاتا ہے بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
( 35:1) فاطر السموت والارض۔ فاطر ۔ اسم فاعل واحد مذکر فطر مصدر (باب نصر، ضرب) مضاف السموت والارض۔ مضاف الیہ۔ الفطر کے اصل معنی کسی چیز کو (پہلی دفعہ) طول میں پھاڑنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی کائنات کو عدم کا پردہ پھاڑ کر وجود میں لایا ہے اس لئے فاطر ہے۔ اہل تفسیر نے اس کے معنی مبدع لئے ہیں یعنی بغیر نظیر و مثال کے عدم محض سے عالم وجود میں لانے والا۔ راغب فرماتے ہیں کہ :۔ ھو ایجادہ تعالیٰ الشیء وابداعہ علی ھیئۃ مترشحۃ بفعل من الافعال۔ اللہ تعالیٰ کا کسی شے کو پہلی مرتبہ اس طرح تخلیق کرنا کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے۔ آیۃ کریمہ فاقم وجھک للذین حنیفا ۔ فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ (30:30) تو تم یک سو ہو کر دین (حق) کی طرف اپنا رخ رکھو اللہ کی اس فطرت کا اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں۔ میں اس معرفت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جو تخلیقی طور پر انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے لہٰذا فطرۃ اللہ سے مراد معرفت الٰہی کی استعداد مراد ہے جو انسان کی جبلت میں پائی جاتی ہے ۔ صاحب تفسیر ماجدی (رح) اس آیۃ کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :۔ فطرت کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص میں اللہ تعالیٰ نے خلقۃ یہ استعداد رکھی ہے کہ اگر حق سنے اور سمجھنا چاہے تو وہ سمجھ میں آجاتا ہے اور اس کے اتباع کا مطلب یہ ہے کہ اس استعداد اور قابلیت سے کام لے اور اس کے مقتضاپر کہ ادراک حق ہے عمل کرے۔ یہ پھاڑنا کبھی کبھی کسی چیز کو بگاڑنے کے لئے بھی آتا ہے مثلاً السماء منقطر بہ (73:18) (اور) جس سے آسمان پھٹ جاوے گا۔ یعنی یوم قیامت کی سختی سے۔ جاعل۔ بنانے والا۔ کرنے والا۔ جعل سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ جاعل الملئکۃ۔ مضاف مضاف الیہ فرشتوں (پیام رساں) بنانے والا۔ فاطر اور جاعل ہر دو اللہ کی صفت ہیں اور اس کی متابعت میں مجرور ہیں۔ رسلا۔ رسل رسول کی جمع ہے جو فعول کے وزن پر (اسم مفعول بروزن مفعل) کا مبالغہ ہے (فعول کا استعمال اس طرح نادر ہے) ۔ رسل اسم مفعول جمع مذکر رسلا بحالت نصب بوجہ مفعول۔ پیغمبر، پیام رساں ۔ بھیجے گئے۔ رسول۔ ملائکہ اور انسان دونوں میں سے ہوسکتے ہیں۔ جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اللہ یصطفی من الملئکۃ رسلا ومن الناس۔ (22:75) اللہ تعالیٰ انتخاب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے پیام پہنچانے والے اور آدمیوں میں سے بھی۔ اصطلاح میں نبی یا رسول بنی نوع انسان میں سے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام نوع انسانی کو پہنچاتے ہیں۔ فرشتوں کی رسالت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں ! (1) یہ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیا (علیہم السلام) کے درمیان پیغام رسانی کی خدمات انجام دیتے ہیں (وحی کی صورت میں) ۔ (2) تمام کائنات میں اللہ تعالیٰ کے احکام لے جاتے ہیں اور ان کو نافذ کرتے ہیں۔ اولی اجنحۃ۔ اولوا (بحالت رفع) اولی (بحالت نصب وجر) جمع ہے بمعنی والے۔ صاحب، مالک، بعض ذو کو اس کا واحد بتاتے ہیں۔ اجنحۃ جناح کی جمع۔ پر ۔ بازو۔ اولی اجنحۃ بازوں والے۔ پروں والے۔ رسلا کی نعت ہے یا اس کا بدل۔ مثنی وثلاث وربع۔ یہ اثنان اثنان وثلثۃ ثلثۃ اور اربعۃ اربعۃ سے معدول ہے (نحویوں کی اصطلاح میں ایک اسم کا اپنے اصلی صیغہ سے نکل کر دوسرے صیغہ میں چلے جانے کو عدل کہتے ہیں۔ جیسے ثلثۃ ثلثۃ سے ثلث کہ اصل کے مطابق ثلث کے معنی تین تین ہوں گے۔ مثنی وثلث وربع ۔ اجنحۃ کی صفت ہیں۔ لہٰذا بوجہ صفت وعدل (دو اسباب منجملہ نو اسباب منع صرف) غیر منصرف ہیں۔ یزید فی الخلق ما یشائ۔ وہ مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے یعنی فرشتوں کے پروں کی تعداد ۔ دو ۔ دو ۔ تین تین۔ چار چار تک ہی محدود نہیں وہ جسے چاہے جتنے چاہے بازو عطا کر دے۔ یا کسی ایک مخلوق کو دوسری مخلوق پر کسی قسم کی بزرگی و برتری عطا کر دے وہ ہر شے پر قادر ہے۔ ھو علی کل شیء قدیر۔
Top