Anwar-ul-Bayan - Faatir : 28
وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ١ؕ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ
وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں سے۔ میں وَالدَّوَآبِّ : اور جانور (جمع) وَالْاَنْعَامِ : اور چوپائے مُخْتَلِفٌ : مختلف اَلْوَانُهٗ : ان کے رنگ كَذٰلِكَ ۭ : اسی طرح اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَخْشَى : ڈرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ مِنْ : سے عِبَادِهِ : اس کے بندے الْعُلَمٰٓؤُا ۭ : علم والے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَزِيْزٌ : غالب غَفُوْرٌ : بخشنے والا
انسانوں اور جانوروں اور چارپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں بیشک خدا غالب (اور) بخشنے والا ہے
(35:28) ومن الناس۔۔ کذلک ای وکذلک من الناس اور اسی طرح انسانوں چارپائوں اور جانوروں کے رنگ جدا جدا ہیں اس جملہ کا عطف سابقہ جملہ پر ہے۔ العلمؤ۔ علمائ۔ عالم لوگ۔ اس رسم الخط میں یہ لفظ شعرا اور سورة فاطر میں آیا ہے یعنی میم کے بعد وائو اور اس پر ہمزہ اور وائو کے بعد الف بھی لکھا جاتا ہے اور پڑھا نہیں جاتا : علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں :۔ شیخ اجل شہاب الدین سہروردی (رح) لکھتے ہیں کہ اس آیۃ میں درپردہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس کے دل میں خشیت نہیں وہ عالم نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت اور صفات کمالیہ کو جاننا مستلزم خشیت ہے خشیت علم کے لئے لازم ہے اور لازم کی نفی ملزوم کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔ العلمؤا یخشی کا فاعل ہے۔ اللہ کو مقدم اور علماء کو مؤخر لانے سے علماء کی تخصیص ہوگئی یعنی اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی ہیں (جو پوری طرح ) اس سے ڈرتے ہیں ای ان الذین یخشون اللہ من عبادہ العلمؤا دون غیرہم۔ ان اللہ عزیز غفور (بےشک اللہ تعالیٰ سب پر غالب، بہت بخشنے والا ہے) یہ خدا سے ڈرنے کے وجوب کی علت ہے۔
Top