Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں تو کیا یہ سمجھتے ہیں ؟
(36:68) من نعمرہ۔ من موصولہ شرطیہ ہے نعمر مضارع صیغہ جمع متکلم ہے اور مجزوم بوجہ شرط ہے تعمیر (تفعیل) مصدر۔ بمعنی عمر دینا۔ عمر کو زیادہ کرنا۔ طویل عمر دینا ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع من ہے، جس کو ہم طویل عمر دیتے ہیں۔ جس کی عمر ہم زیادہ کردیتے ہیں۔ یہ جملہ شرطیہ ہے : ننکسہ فی الخلق : جواب شرط۔ مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) جمع متکلم۔ تنکیس (تفعیل) مصدر۔ ہم الٹا کردیتے ہیں۔ ہم کبڑا کردیتے ہیں۔ نکس ضعف پیری سے ایک جگہ پڑا رہنے والا۔ نکس سست اور کمزور آدمی۔ انک اس جمع ہ ضمیر مفعول واحد مذکرغائب کا مرجع من ہے۔ فی الخلق (اس کی ) خلقت میں۔ اس کی طبعی قوتوں کے لحاظ سے۔ مراد یہ ہے کہ بڑھاپے میں آدمی کی حالت پلٹ کر بچوں کی سی ہوجاتی ہے وہ بچوں کی طرح چلنے پھرنے سے معذور ہوجاتا ہے اور دوسروں کا سہارا ڈھونڈھتا ہے کھانے پینے میں بھی بچوں کی طرح دوسروں کی مدد کا محتاج ہوتا ہے اور بچوں ہی کی طرح ناسمجھی باتیں کرنے لگتا ہے۔ افلا یعقلون۔ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے کہ جو بندا اس قدر تغیر پر قادر ہے وہ آنکھوں کو نابود کرنے اور شکلوں کو مسخ کرنے پر بھی قادر ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ تغیرات تدریجی ہوتے ہیں (اور اگر مسخ ہوتا تو یک دم ہوتا)
Top