Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 15
فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
فَاعْبُدُوْا : پس تم پرستش کرو مَا شِئْتُمْ : جس کی تم چاہو مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوائے قُلْ : فرمادیں اِنَّ : بیشک الْخٰسِرِيْنَ : گھاٹا پانے والے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : گھاٹے میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو وَاَهْلِيْهِمْ : اور اپنے گھر والے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : روز قیامت اَلَا : خوب یاد رکھو ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الْخُسْرَانُ : گھاٹا الْمُبِيْنُ : صریح
تو تم اس کے سوا جس کی چاہو پرستش کرو کہہ دو نقصان اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈالا دیکھو یہی صریح نقصان ہے
(39:15) فاعبدوا ما شئتم من دونہ۔ بطور تہدید و قطع تعلقی آیا ہے۔ خسروا۔ ماضی جمع مذکر غائب خسر و خسار و خسران مصدر (باب سمع) بمعنی زیابن۔ نقصان ، ٹوٹا۔ سرمایہ میں گھاٹا۔ خسر فعل مقدم ہے لیکن آیت ہذا میں بطور فعل متعدی استعمال کیا گیا ہے کیونکہ انفسکم اور اہلیہم مفعول مذکور ہے۔ خسروا جنہوں نے اپنی جانوں کو اور اپنے گھروالوں کو گھاٹے میں ڈالا۔ اپنے اہل کو گھاٹے میں ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے اس نے اپنے عزیز و اقارب دوستوں۔ ہم قوموں کو توحید سے دور رکھا۔ یوم القیامۃ۔ مضاف مضاف الیہ خسروا کا مفعول فیہ۔ قیامت کے روز۔ الا۔ حرف تنبیہ۔ یادرکھو۔ الخسران المبین۔ موصوف و صفت۔ صریح خسارہ۔ یہاں خسران کی شدت کو بیان کرنے کے لئے اول تو فقرہ کی ابتداء الا کلمہ تنبیہ سے کی گئی ہے پھر خسران کو معرفہ استعمال کرکے اس کی شدت کی مزید تاکید کی گئی ہے اور پھر اس پر مبین لا کر اس کے ہمہ جہت خسارہ ہونے کا اظہار کیا۔ پھر قیامت کے روز یہ گھاٹا اور بھی مہیب شکل اختیار کرے گا۔ کیونکہ یہ مستقل اور دوامی صورت میں ہوگا۔ دنیا کے گھاٹے کی طرح نہیں کہ جس کے تبدیل ہونے کا اور ختم ہونے کا امکان ہے۔
Top