Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 2
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَؕ
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ : بیشک ہم نے نازل کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبَ : یہ کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ فَاعْبُدِ اللّٰهَ : پس اللہ کی عبادت کرو مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهُ : اسی کے لیے الدِّيْنَ : عبادت
(اے پیغمبر ﷺ ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تو خدا کی عبادت کرو (یعنی) اسکی عبادت کو (شرک سے) خالص کر کے
(39:2) بالحق۔ حق کے ساتھ ، یعنی حامل حق کتاب یا ب سببیہ ہے۔ یعنی حق کو ثابت کرنے۔ ظاہر کرنے اور تفصیل سے بیان کرنے کے لئے یہ کتاب ہم نے آپ کے پاس بھیجی ہے۔ بظاہر جملہ انا انزلنا الیک الکتاب بالحق۔ مفہوم کے لحاظ سے پہلے جملہ کی تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ تکرار نہیں ہے اول جملہ میں تنزیل الکتاب تو عنوان کے طور پر فرمایا تھا اور اس جملہ میں انا انزلنا الیک الکتاب اس مضمون کو بیان کرنے کے لئے فرمایا :۔ ھذا لیس بتکرار لان الاول کالعنوان لکتاب والثانی لبیان ما فی الکتاب۔ فاعبد اللّٰہ مخلصا لہ الدین ۔ الفاء للترتیب۔ اعبد فعل امر واحد مذکر حاضر عبادۃ مصدر (باب نصر) سے مخلصا اسم فاعل واحد مذکر بحالت نصب اخلاص (افعال) مصدر سے۔ اخلاص کے لغوی معنی ہیں۔ کسی چیز کو ملاوٹ سے ہر ممکن پاک و صاف کردینا۔ یہ خلوص کا متعدی ہے جس کے معنی آمیزش سے صاف اور خالی ہونا ہے۔ اصطلاح شرع میں یہ ہیں کہ محض خداوند تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے عمل کیا جاوے اور اس کے علاوہ کسی اور جذبہ کی آمیزش نہ ہو۔ اخلاص جان عبادت ہے اخلاص کے بغیر عبادت میں عبادت کا مفہوم ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الدین۔ اطاعت و عبادت۔ الدین ای الطاعۃ وقیل العبادۃ (قرطبی) دین اصل لغت کے اعتبار سے اطاعت اور جزاء کے معنی میں ہے پھر بطور استعارہ شریعت کے لئے استعمال ہوا۔ کیونکہ شریعت کی روح اطاعت خداوندی ہی ہے۔ قرآن میں مختلف مواقع پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً (1) ان الدین عند اللّٰہ الاسلام (3:19) در حقیقت دین جو اللہ کے نزدیک مقبول ہے اسلام ہے۔ یہاں دین سے مراد شریعت (2) واخلصوا دینھم للّٰہ۔ (4:146) اور انہوں نے اپنی اطاعت اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کردیا۔ یہاں دین سے اطاعت مراد ہے۔ (3) ملک یوم الدین۔ (1:3) مالک ہے روزجزاء کا یہاں دین بمعنی جزاء آیا ہے۔ جزاء ۔ اطاعت۔ عبادت۔ شریعت کوئی بھی معنی دین کے لئے جاویں شریعت کی پابندی کو ان سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور شریعت زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے خواہ وہ اخلاقی ہو، معاشرتی ہو، معاشی ہو، روحانی ہو۔ گویا زندگی کو شریعت کے جملہ احکام کے مطابق مطیع کردینا دین پر چلنا ہے۔ لہ میں لام استحقاق کے لئے ہے ہ ضمیر کا مرجع اللہ ہے الذین کا نصب مخلصا سے ہے۔ مخلصا لہ الدین یہ جملہ ضمیر اعبد سے حال ہے۔ تو اللہ کی عبادت کر درآں حالیکہ تیری اطاعت و عبادت خالصۃ اسی کے لئے ہو (اس میں کسی قسم کے شرک، ریا یا شک وشبہ کا دخل نہ ہو)
Top