Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 43
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَآءَ١ؕ قُلْ اَوَ لَوْ كَانُوْا لَا یَمْلِكُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَعْقِلُوْنَ
اَمِ : کیا اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنا لیا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا شُفَعَآءَ ۭ : شفاعت کرنے والے قُلْ : فرمادیں اَوَلَوْ : یا اگر كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ نہ اختیار رکھتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَعْقِلُوْنَ : اور نہ وہ سمجھ رکھتے ہوں
کیا انہوں نے خدا کے سوا اور سفارشی بنا لئے ہیں ؟ کہو کہ خواہ کسی چیز کا اختیار بھی نہ رکھتے ہوں اور نہ کچھ سمجھتے ہی ہوں
(39:43) (1) ہمزہ انکار کے معنی میں ہے اور ابتدائیہ ہے۔ کیا انہوں نے اللہ کے اذن کے بغیر شفیع بنا رکھے ہیں۔ حالانکہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی مجال نہیں۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ (2:255) کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کرسکے۔ من دون اللّٰہ : ای من دون اذنہ (اس کے اذن کے بغیر اس کی اجازت کے بغیر) ۔ (روح المعانی۔ کشاف) دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور سفارشی بنا رکھے ہیں۔ حالانکہ سب سفارش اللہ کے اختیار میں ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت میں اشارہ ہے۔ قل للّٰہ الشفاعۃ جمیعا۔ (39:44) مطلب یہ ہے کہ ان کے مزعومہ سفارشی بےبس و بےاختیار ہیں سفارش تمام تر اللہ ہء کے اختیار میں ہے۔ (2) ام منقطعہ ہے اور بمعنی بل (حرف اضراب) آیا ہے اور مقصود اس سے ماقبل کی تصحیح اور مابعد کا ابطال ہے۔ یعنی سکھ دینے اور دکھ کو کرنے کیلئے اللہ ہی کافی ہے اور متوکلین اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اس کے سوا کسی کی امداد یا کسی کی سفارش پر بھروسہ رکھنا قطعا لا حاصل ہے۔ اولو کانوا میں ہمزہ استفہام انکاری کا ہے۔ اس کا ادخال فعل محذوف پر ہے۔ ای ایشفعون واؤ حالیہ ہے۔ اس سے اگلا جملہ حالیہ ہے ای ایشفعون ولو کانوا ۔۔ الخ کیا وہ تمہاری شفاعت کریں گے اگرچہ ان کی یہ حالت ہے کہ یہ نہ کوئی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ان کو کچھ علم ہے (یعنی ان کو نہ کوئی عقل و شعور ہے یا سوجھ بوجھ ہے)
Top