Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 58
اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ
اَوْ : یا تَقُوْلَ : وہ کہے حِيْنَ : جب تَرَى : تو دیکھے الْعَذَابَ : عذاب لَوْ اَنَّ : کاش اگر لِيْ : میرے لیے كَرَّةً : دوبارہ فَاَكُوْنَ : تو میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
یا جب عذاب دیکھ لے تو کہنے لگے کہ اگر مجھے پھر ایک دفعہ دنیا میں جانا ہو تو میں نیکوکاروں میں ہوجاؤں
(39:58) او تقول۔ اس کی تشریح آیات 56:57 متذکرہ بالا۔ میں دیکھیں۔ تری مضارع واحد مؤنث غائب۔ ر أ ی مادہ رؤیۃ مصدر۔ وہ دیکھتی ہے وہ دیکھے گی۔ لو ان لی کرۃ۔ جملہ تمنائی ہے فاکون من المحسنین اس کا جواب ہے لو کاش کرۃ (منصوب بوجہ عمل ان) ۔ الکر : کر یکر (باب نصر) سے مصدر ہے مگر بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ مصدر بمعنی مڑنا۔ لوٹنا۔ جیسے انھزم عنہ ثم کر علیہ۔ اس نے اس سے شکست کھائی اور پھر حملہ کے لئے لوٹ پڑا۔ یعنی پینترا بدلنے کے لئے وہ بھاگا پھر اس نے دوبارہ حملہ کیا۔ کرار اسم صفت ہے پھر پھر کر حملہ کرنے والا۔ اور تکرار کسی شے کو بار بار کرنا۔ کرۃ میں تا وحدت کی ہے یعنی ایک بار۔ گویا کرۃ کے معنی ہوئے ایک بار لوٹنا۔ ایک پھیرا۔ ایک مرتبہ واپسی۔ فاکون میں نصب بوجہ جواب تمنا ہے محسنین اسم فاعل جمع مذکر ۔ نیکوکار۔ نیکی کرنے والے۔ احسان سے۔ جملہ کا ترجمہ یوں ہوگا :۔ اے کاش میرا (دنیا میں) پھرجانا ہوجائے پھر میں نیک بندوں میں ہوجاؤں۔ لو تمنائیہ کی اور مثال :۔ فلو ان لنا کرۃ فنکون من المؤمنین (26:102) کاش ہمیں (دنیا میں) پھرجانا ہو تو ہم مومنوں میں ہوجائیں۔ لو ان لی کرۃ جملہ شرطیہ بھی ہوسکتا ہے بمعنی اگر مجھے (دنیا میں) پھر ایک بار جانا نصیب ہوجائے۔
Top