Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 63
لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لَهٗ مَقَالِيْدُ : اس کے پاس کنجیاں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات کے اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں اور جنہوں نے خدا کی آیتوں سے کفر کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں
(39:63) لہ میں لام ملک کے معنی میں آیا ہے اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب اللہ کی طرف راجع ہے وہی مالک ہے یعنی اللہ ہی مالک ہے۔ جیسے اور جگہ آیا ہے لہ ما فی السموت وما فی الارض (2:255) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا وہی مالک ہے۔ مقالید : مقلاد یا مقلید کی جمع ہے جیسے مفتاح کی جمع مفاتیح اور مندیل کی جمع منادیل ہے۔ کنجیاں۔ لہ مقالید السموت والارض یعنی آسمانوں کے اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ سارا جہاں اسی کی ملک ہے کوئی بھی اس کے سوا ان خزانوں میں تصرف نہیں کرسکتا۔ ایت اللّٰہ سے مراد کلمات تمجید، و توحید یا قرآن مجید یا اللہ کی قدرت مستقلہ کے نشانات و علامات۔ ہم الخسرون۔ اسم فاعل جمع مذکر خسرو خسران مصدر سے ۔ ٹوٹا پانے والے۔ نقصان اٹھانے والے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب حصر کے لئے ہے۔ یعنی وہی خسارہ پانے والے ہیں۔
Top