Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 73
وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ
وَسِيْقَ : ہنکا (لے جایا) جائے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّقَوْا : وہ ڈرے رَبَّهُمْ : اپنا رب اِلَى الْجَنَّةِ : جنت کی طرف زُمَرًا ۭ : گروہ در گروہ حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا : جب جَآءُوْهَا : وہ وہاں آئیں گے وَفُتِحَتْ : اور کھول دیے جائیں گے اَبْوَابُهَا : اس کے دروازے وَقَالَ : اور کہیں گے لَهُمْ : ان سے خَزَنَتُهَا : اس کے محافظ سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر طِبْتُمْ : تم اچھے رہے فَادْخُلُوْهَا : سو اس میں داخل ہو خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے کو
اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ گروہ بنا کر بہشت کی طرف لے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے تو اس کے داروغہ ان سے کہیں گے کہ تم پر سلام تم بہت اچھے رہے اب اس میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ
(39:73) اتقوا۔ انہوں نے پرہیزگاری اختیار کی۔ جو ڈرتے رہے۔ ملاحظہ ہو 39:61 متذکرۃ الصدر۔ حتی اذا جاء وھا وفتحت ابوابھا۔ میں بعض کے نزدیک واؤ زائد ہے۔ کیونکہ فتحت ابوابھا جواب ہے حتی اذا کا۔ یعنی یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائی گے اس کے (جنت کے) دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ اور بعض کے نزدیک واؤ عاطفہ ہے زائد نہیں ہے اور حتی اذا جاؤھا کا جواب محذوف ہے ای حتی اذا جاء ھا وفتحت ابوابھا (دخلوھا) یعنی جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس (جنت) کے دروازے کھول دئیے جائیں گے یہ اس میں داخل ہوجائیں گے۔ ھا۔ ضمیر واحد مؤنث غائب ا مرجع الجنۃ ہے۔ طبتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ طاب یطیب (باب ضرب) سے۔ طیب طاب طیبۃ وتطیاب مصادر۔ اچھا ہونا۔ عمدہ ہونا۔ مزیدار خوشذائقہ ہونا۔ طیب طیب سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے اور طیب وہ چیز ہے کہ جس سے حواس لذت اٹھائیں ۔ اور جی مزہ پائے طعام طیب شرع میں وہ ہے جو جائز طور پر۔ جائز مقدار میں۔ جائز مقام سے حاصل کیا گیا ہو۔ پاکیزہ۔ صاف ستھرا۔ حلال اسی طیب کی صفات ہیں۔ (1) لہٰذا طاب یطیب جہاں تک رزق کا تعلق ہے اس کا حلال و پاکیزہ اور ہر لحاظ سے جائز ہونا مراد ہے۔ (2) اور جہاں تک کسی کی ذات سے تعلق ہے گناہوں کی آلودگیوں سے پاک ہونا ہے۔ (3) اور جہاں تک ارادہ و خواہش کا تعلق ہے اس میں خوشی۔ لطافت، عدم اکراہ کا ہونا ہے۔ مثلا (1) وکلوا مما رزقکم اللّٰہ حلال طیبا (5:88) اور جو حلال طیب روزی خدا نے تمہیں دی ہے اسے کھاؤ۔ اور کلوا من طیب (23:51) پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور (2) کے متعلق قرآن مجید میں ہے فان طبن لکم (4:4) ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑ دیں۔ اور فانکحوا ما طاب لکم من النساء (4:3) (تو اس کے سوا) جو عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو۔ فادخلوھا۔ میںسببیہ ہے یعنی ان لوگوں کا شرک و معاصی سے پاک ہونا ہی جنت میں داخل ہونے اور وہاں ہمیشہ رہنے کا سبب ہوگا۔ ادخلوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ھا ضمیر واحد مؤنث کا مرجع الجنۃ ہے۔ سلام علیکم طبتم فادخلوھا خلدین۔ ان الفاظ کے ساتھ جنت کے دروازے پر فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔ فائدہ : آیت 71 میں جنہوں کے لئے اور آیت 73 میں بہشتیوں کے لئے دونوں کے لئے لفظ سیق آیا ہے۔ ساق یسوق سوق وسیاقۃ ومساق جانور کو ہانکنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ فاعل کے بدلنے سے فعل کے معنی بدل جاتے ہیں ۔ مثلاً گواہ بیٹھ گیا۔ آنکھ بیٹھ گئی وغیرہ۔ یہاں لفظ سیق اہل دوزخ کے لئے برے معنوں میں استعمال ہوا ہے ان کو سخت گیر فرشتے زبردستی دوزخ کی طرف مویشیوں جانوروں کی طرح ہانک کرلے جائیں گے اگرچہ وہ دوزخ میں جانا ہرگز نہ چاہیں گے۔ دوسری طرف اہل جنت کے لئے اس لفظ کے استعمال کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) اہل جنت کو بہ سرعت جنت میں لے جانے کے لئے لفظ سیق استعمال ہوا ہے۔ (2) اہل جنت کو اعزازا سواری پر جنت میں لے جایا جائے گا اور سواری کی تیزی کو لفظ سیق سے بیان کیا گیا ہے۔ (3) جب اہل ایمان و اہل تقوی محشر میں دیدار الٰہی سے مشرف ہوں گے وت وہ اس منظر کو چھوڑنے سے تامل کریں گے کیونکہ ان کے نزدیک دیدار الٰہی ہی منتہی الارب ہوگا اور فرط اشتیاق میں وہ بھول جائیں گے کہ جنت میں بھی اس کو یہ نعمت عطا ہوگی۔ لہٰذا ان کے فرشتے علی الرغم جنت کی طرف لیجائیں گے۔
Top