Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو۔
(4:5) قیما۔ مصدر بھی ہے (باب نصر) جس کے معنی ہیں کھڑا ہونا۔ بیٹھنے کی حالت سے اٹھنا۔ اور قائم کی جمع بھی ہے۔ کھڑے ہونے والے۔ قیام کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) کسی شخص کا تسخیری طور پر یا اپنے ارادہ سے کھڑا ہونا۔ مثال منھا قائم وحصید (11:100) ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ہوگئے ہیں (تسخیری طور پر کھڑا ہونے کے معنی ہیں) ۔ والذین یبیتون لربھم سجدا وقیاما (25:64) اور وہ لوگ اپنے رب کے حضور سجدہ میں اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ (قیام اختیاری کی مثال) (2) قیام للشیئ۔ کسی شے کی حفاظت اور نگرانی کرنا۔ الرجال قوامون علی النساء (4:34) مرد عورتوں پر راعی اور محافظ ہیں (3) کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا ۔ یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ (5:6) مومنو ! جب تم ارادہ کرو نماز پڑھنے کا۔ (4) قیام اور قوام اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس سے کسی شے کی بقا وابستہ ہو۔ مثلاً آیۃ ہذا : ولا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما (4:5) نہ دونا دانوں کو اپنے مال جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زندگی کا سہارا بنایا ہے۔ اموالکم۔ سے اصل مراد وہ مال ہے جو نادان یتیموں کا دوسروں کی تحویل میں بطور نگران دیا گیا ہے۔ ھم کی بجائے کم کی ضمیر کا استعمال اس اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہوا ہے کہ یہ مال ایسا ہی قابل توجہ اور قابل احتیاط ہے جیسا کہ تمہارا اپنا مال۔ اس لئے اس کا ضیاع بہرنوع مذموم ہے۔ اور جعل اللہ لکم قیاما جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زندگی کا سہرا بنایا ہے) کے الفاظ اس مال کی اہمیت اور اس کی قدروقیمت کو ذہن نشین کرانے کے لئے ہے کہ یہ مال زندگی کا سہارا ہے اس لئے اس کو بےمقصد خرچ کرنا منع ہے تو اس آیۃ کا مطلب یہ ہوا کہ نابالغ۔ بےسمجھ یتیموں کے مال کی اپنا مال سمجھ کر حفاظت کرو یہ مال زندگی کا سہارا ہے اس لئے اسے بےمقصد خرچ کے لئے ان کے مال ان نادان یتیموں کے حوالے نہ کرو۔ جو نادانی کی وجہ سے اسے چند دنوں میں اڑا دیں گے (لیکن ان کے کھانے پینے اور لباس ضروریہ پر اس مال سے خرچ کرسکتے ہو) ۔
Top