Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
مومنو ! (جہاد کے لئے) ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو
(4:71) حذرکم۔ تمہارا بچاؤ۔ جس کے ذریعہ کیا جاتا ہے ۔ حذر کہلاتا ہے۔ مضاف مضاف الیہ۔ الحذر (س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا۔ قرآن حکیم میں ہے ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم فاحذروھم (65:14) تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن (بھ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر سے یہاں مراد اسلحہ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے۔ خذوا حذرکم احتیاطی تدابیر مکمل رکھو۔ اپنے بچاؤ کا انتظام پورا رکھو۔ اپنے بچاؤ کے ہتھیار موجود رکھو۔ مقابلہ کے لئے چوکنے اور تیار رہو۔ انفروا۔ تم نکلو۔ تم کوچ کرو۔ (نصر، ضرب) نفیر اور نفور سے۔ جس کے معنی نکلنے کوچ کرنے۔ اور بھاگنے (فرار ہونے) کے ہیں۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اصل میں نفر کے معنی کسی چیز کے لئے بیتاب ہونے کے ہیں یا اس سے بیزار ہونے کے ہیں۔ فانفروا۔ پس تم نکلو۔ بثات۔ جمع ۔ ثبۃ واحد۔ گروہ۔ ٹولے۔ ثبات ای فی ثبات۔ جمیعا۔ سب اکٹھے ہوکر ۔ جماعت کی صورت میں۔ انفروا۔ سے مراد مطلق باہر نکلنا بھی ہے اور جہاد کے لئے دشمنوں کے مقابلہ میں نکلنا بھی ہے یہاں دونوں ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ جنگ احد کے بعد دشمنوں کے حوصلے بلند ہوگئے تھے۔ اطراف و نواح کے قبیلوں کے تیور بدل گئے تھے اور وہ ہر وقت مسلمانوں کے درپے آزار تھے۔ اس لئے حکم ہوا کہ جب بھی باہر نکلو تو دشمنوں سے خطرہ کے پیش نظر مسلح ہوکر گروہ کی صورت میں نکلو تاکہ بوقت ضرورت خاطر خواہ مدافعت کرسکو۔ دوسری صورت میں پہلے خدا اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا۔ اور اب دین کی سربلندی کے لئے جہاد کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ اور حکم ہوتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں متفق و مجتمع حالت میں نکلو۔ اور باقاعدہ اسلحہ جنگ سے لیس ہوکر۔
Top