Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 29
یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ١٘ فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَا١ؕ قَالَ فِرْعَوْنُ مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَ مَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَكُمُ : تمہارے لئے الْمُلْكُ : بادشاہت الْيَوْمَ : آج ظٰهِرِيْنَ : غالب فِي الْاَرْضِ ۡ : زمین میں فَمَنْ : تو کون يَّنْصُرُنَا : ہماری مدد کرے گا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ : اللہ کے عذاب سے اِنْ جَآءَنَا ۭ : اگر وہ آجائے ہم پر قَالَ : کہا فِرْعَوْنُ : فرعون مَآ اُرِيْكُمْ : نہیں میں دکھاتا (رائے دیتا) تمہیں اِلَّا مَآ : مگر جو اَرٰى : میں دیکھتا ہوں وَمَآ : اور نہیں اَهْدِيْكُمْ : راہ دکھاتا تمہیں اِلَّا سَبِيْلَ : مگر راہ الرَّشَادِ : بھلائی
اے قوم ! آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو (لیکن) اگر ہم پر خدا کا عذاب آگیا تو (اسکے دور کرنے کے لئے) ہماری مدد کون کرے گا ؟ فرعون نے کہا میں تمہیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے اور وہی راہ بتاتا ہوں جس میں بھلائی ہے
(40:29) یقوم : ای یا قومی۔ اے میری قوم۔ اے میرے بھائیوں ! اے میری قوم والو ! الملک۔ بادشاہت، حکومت۔ الیوم۔ آج کے دن ۔ آج ظاھرین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ بحالت نصب۔ غالب۔ غلبہ پانے والے۔ فی الارض : ای فی ارض مصر۔ سرزمین مصر۔ باس اللّٰہ مضاف مضاف الیہ۔ باس سختی۔ آفت۔ لڑائی، دبدبہ۔ جنگ کی شدت۔ اصل میں تو اس کے معنی سختی اور آفت کے ہیں مگر لڑائی اور غلبہ کے معنی میں اس کا استعمال بکثرت ہوتا ہے۔ البؤس و الباس اور الباساء تینوں ایک ہی مادہ بئس سے ہیں اور تینوں میں سختی و ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں۔ مگر یؤس کا لفظ زیادہ فقرہ فاقیہ کے لئے آتا ہے۔ معجم الوسیط میں ہے البؤس المشقۃ والفقر : البأساء بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ جو مشقت و فقر کے علاوہ شدت حرب کیلئے بھی آتا ہے ای الحرب الفقر المشقۃ ۔ الباھیۃ (آفت وبلا، مصیبت، بڑا معاملہ) اسی طرح بأس جو اسی مادہ بئس سے ہے اس میں حرب شدت حرب، سخت عذاب اور خوف کے معنی غالب ہیں ۔ یہاں بأس سے مراد عذاب یا سختی ہے۔ ان جاء نا اگر وہ (باس یا عذاب) ہم پر آگیا یا آجائے۔ جملہ شرطیہ ہے اس کی جزاء جملہ ماقبل میں آچکی ہے۔ یہاں اس مرد مومن کا خطاب اپنی قوم سے ختم ہوا اگلی آیت میں فرعون کا جواب ہے۔ (40:29) ما اریک : ما اری فعل مضارع نفی واحد متکلم اراء ۃ (افعال) مصدر بمعنی دکھانا۔ متعدی بد و مفعول کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ میں تم کو نہیں دکھاتا (مگر) ما اری ۔ ما موصولہ۔ اری مضارع واحد متکلم ۔ رؤیۃ (باب فتح) سے جس کے معنی اصل میں ادراک مرئی (دیکھنے) کے ہیں (متعدی بیک مفعول) ۔ لیکن تخیل و تفکر یا بذریعہ عقل بھی کسی شے کے ادراک کو رؤیۃ کہتے ہیں۔ ما اریکم الا ما اری میں تم کو وہی مشورہ دیتا ہوں جو میں (درست) سمجھتا ہوں۔ (لفظی ترجمہ : میں تمہیں نہیں دکھاتا مگر وہ جو میں آپ دیکھتا ہوں) ۔ ادرراک غیر مرئی کی مثال : افلا یردون انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا (21:44) کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں۔ اھدیکم : اھدی مضارع واحد متکلم ھدایۃ (افعال) مصدر سے کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ میں تم کو راہ دکھاتا ہوں۔ الا سبیل الرشاد : الا حرف استثناء سبیل الرشاد مضاف مضاف الیہ۔ نیکی۔ بھلائی۔ راستی کا راستہ۔ رشاد۔ رشد یرشد (نصر) کا مصدر ہے راہ راست اختیار کرنا۔ ما اھدیکم الا سبیل الرشاد : میں صرف سیدھے راستہ کی طرف ہی تمہاری رہنمائی کرتا ہوں۔
Top