Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 31
مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ
مِثْلَ دَاْبِ : جیسے ۔ حال قَوْمِ نُوْحٍ : قوم نوح وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ : اور عاد اور ثمود وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ۭ : ان کے بعد وَمَا اللّٰهُ يُرِيْدُ : اور اللہ نہیں چاہتا ظُلْمًا : کوئی ظلم لِّلْعِبَادِ : اپنے بندوں کیلئے
(یعنی) نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو لوگ ان کے پیچھے ہوئے ہیں ان کے حال کی طرح (تمہارا حال نہ ہوجائے) اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا
(40:31) مثل داب قوم نوح وعاد وثمود والذین من بعدہم۔ یہ یوم الاحزاب کی تفسیر ہے۔ یعنی ڈر ہے کہ تم پر بھی ویسا عذاب نہ آجائے جیسا قوم نوح پر قوم عاد پر قوم ثمود پر اور ان کے بعد والوں پر (مثلاً قوم لوط (علیہ السلام) و قوم نمرود ہر) عذاب آیا تھا۔ داب اصل میں دأب یدأب (باب فتح کا مصدر ہے جس کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں۔ جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وسخر لکم الشمس والقمر دائبین (14:33) اور سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا دیا کہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں۔ اسی استمرار کی وجہ سے عادت مستمرہ جو ہمیشہ ایک حالت پر رہے اسے داب کہتے ہیں۔ مثل داب ۔۔ بعدہم کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم یا عاد وثمود کی قوم یا ان کے بعد کی قوموں کی عادت مستمرہ (تکذیب و ایذا رسانی پیغمبران الٰہی) ان پر عذاب الٰہی کا سبب بنی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ (تم جو حضرت موسیٰ کی تکذیب کر رہے ہو اور اس کے قتل کا ارادہ رکھتے ہو) تم پر بھی ویسا ہی عذاب نہ آجائے۔ مثل الاول کا عطف بیان ہونے کی وجہ سے مثل الثانی بھی منصوب ہے۔ وما اللّٰہ یرید ظلما للعباد : للعباد میں لام زائدہ ہے اور العباد مفعول ہے لام کی زیادتی مصدر (ظلما) کے عمل کو قوت پہنچانے کے لئے کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر کسی طرح کا ظلم نہیں کرنا چاہتا یا کسی کو بلا قصور سزا دے یا ظالم کو بغیر انتقام کے چھوڑ دے۔ یا کسی کی نیکی کے ثواب میں کمی کر دے یا کسی مجرم کی سزا میں اس کے جرم کی مقدار سے زیادہ سزاد دے۔ (تفسیر مظہری) اور جگہ قرآن مجید میں ہے وان اللّٰہ لیس بظلام للعبید (3:182) اور خدا تو بندوں ہر مطلق ظلم کرنے والا نہیں۔ لیکن وما اللّٰہ یرید ظلما للعباد زیادہ بلیغ ہے۔
Top