Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 71
اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ وَ السَّلٰسِلُ١ؕ یُسْحَبُوْنَۙ
اِذِ الْاَغْلٰلُ : جب طوق (جمع) فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنوں میں وَالسَّلٰسِلُ ۭ : اور زنجیریں يُسْحَبُوْنَ : وہ گھسیٹے جائیں گے
جب کہ ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی (اور) گھسیٹے جائیں گے
(40:71) آیات 71 و 72 میں وہ انجام و عاقبت کا بیان ہے جو مجادلت کرنے والوں اور تکذیب کرنے والوں کی ہوگی۔ اذ : اسم ظرف زمان ہے : اذ اصل واقعہ کے اعتبار سے تو زبان ماضی کا اور اذا زمان مستقبل کا ظرف ہے ۔ لیکن کبھی دوسرے زمانے کی نسبت بھی ان کی طرف واقع ہوجاتی ہے۔ یعنی اذ زمان مستقبل کے لئے اور اذا زمان ماضی کے لئے۔ یہاں اذ زمان مستقبل کا ظرف ہے۔ جب، جس وقت۔ الاغلال : غل کی جمع طوق، قیدیں، ہتھکڑیاں، بندھن، غل اس شئے کے ساتھ مخصوص ہے جس سے قید کیا جائے اور اس میں اعضاء باندھ دئیے جائیں۔ اذ الاغلال مبتدا ہے اور فی اعناقھم خبر ہے۔ والسلاسل واؤ عاطفہ ہے اور اس کا عطف الاغلال پر ہے۔ اور فی اعناقھم اس کی خبر ہے : ای الاغلال والسلاسل فی اعناقھم بندھن اور زنجیریں ان کی گردنوں میں ہونگی السلسلۃ زنجیر۔ یسبحون : مضارع مجہول جمع مذکر غائب سحب (باب فتح) مصدر۔ زمین پر گھسیٹنا۔ السحب کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اسی سے بال کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اسلئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے جاتی ہے۔ یا اسلئے کہ وہ خود پانی کو کھینچ کر لاتا ہے اور یا اس بناء پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہونا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے یسبحون وہ گھسیٹے جائیں گے (فی الحمیم : کھولتے ہوئے پانی میں) ۔
Top