Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 17
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌ
وَاِذَا بُشِّرَ : حالانکہ جب خوش خبری دی جاتی ہے اَحَدُهُمْ : ان میں سے کسی ایک کو بِمَا : ساتھ اس کے جو ضَرَبَ للرَّحْمٰنِ : اس نے بیان کیا رحمن کے لیے مَثَلًا : مثال ظَلَّ : ہوجاتا ہے وَجْهُهٗ : اس کا چہرا مُسْوَدًّا : سیاہ وَّهُوَ كَظِيْمٌ : اور وہ غم کے گھونٹ پینے والا ہوتا
حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوش خبری دی جاتی ہے جو انہوں نے خدا کے لئے بیان کی ہے تو اس کا منہ سیاہ ہوجاتا اور وہ غم سے بھر جاتا ہے
(43:17) واذا میں واؤ حالیہ ہے اور اذا شرطیہ ۔ حالانکہ جب۔ بشر ماضی مجہول واحد مذکر غائب تبشیر (تفعیل) مصدر جس کے معنی خوشخبری سنانے کے ہیں۔ تبشیر میں کثرت سے خوشخبری دینے کے معنی ملحوظ ہیں۔ لیکن کبھی کبھی غصہ کے اظہار کے لئے تہکما یا طنزا افسوسناک یا بری خبر سنانے کے لئے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ یہاں یہی معنی مراد ہیں۔ احدہم۔ ان میں سے کوئی ایک۔ احد مضاف ہم مضاف الیہ۔ بما ضرب للرحمن مثلا : ما موصولہ۔ ضرب للرحمن مثلا (مثلا مفعول بہ ضرب کا) صلہ و موصول مل کر مفعول بہ ہوا بشر کا۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور حال یہ ہے کہ جب ان میں سے کسی کو اسی وصف، صفت یا حالت کی بشارت دی جائے (یعنی خبر دی جائے) جسے وہ اللہ کے لئے قرار دیتا ہے تو ۔۔ مثلا کے لئے مزید ملاحظہ ہو 43:8 متذکرہ بالا۔ صاحب تفسیر مظہری اس جملہ کی تشریح میں رقم طراز ہیں :۔ یعنی جب اس جنس کی بشارت دی جاتی ہے جس کو وہ خدا کی مثل قرار دیتا ہے (مطلب یہ ہے کہ ملائکہ کو وہ خدا کی بیٹیاں قرار دیتا ہے اور ان کو خدا کی مثل مانتا ہے) کیونکہ اولاد اپنے باپ کی مثل اور مشابہ ہوتی ہے یا مثل سے مراد ہے صفت، یعنی جب اس کو اس صفت کی بشارت دی جاتی ہے جس نے اس کو رحمان کا وصف قرار دیا ہے (تو انتہائی غم سے اس کا چہرہ سخت کالا ہوجاتا ہے) اذا ۔۔ مثلا جملہ شرط ہے۔ ظل وجھہ مسودا جملہ جواب شرط ہے۔ ظل ای صار۔ ماضی واحد مذکر غائب ظل وظلول (باب فتح و سمع) ہوگیا افعال ناقصہ میں سے ہے۔ مسودا۔ اسم مفعول واحد مذکر اسوداد (افعلال) مصدر۔ سواد سیاہی مسودا سیاہ۔ غم کی وجہ سے رنگ بگڑا ہوا تو اس کا رنگ غم کی وجہ سے کالا ہوجاتا ہے۔ وھو کظیم واؤ حالیہ۔ کظیم۔ الکظم اصل میں مخرج النفس یعنی سانس کی نالی کو کہتے ہیں۔ چناچہ محاورہ ہے اخذ بکظمہ اس کی سانس کی نالی کو پکڑ لیا۔ یعنی غم میں مبتلا کردیا۔ الکظوم کے معنی سانس رکنے کے ہیں اور مکظوم غم و غصہ سے بھرا ہوا۔ کظم الغیظ غصہ کو روکنا۔ کظیم صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ، سخت غمگین جو اپنے غصہ کو گھونٹ کر رکھے اور ظاہر نہ ہونے دے۔ نیز ملاحظہ ہو 16:57-59) ۔
Top