Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 3
اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَۚ
اِنَّا : بیشک ہم نے جَعَلْنٰهُ : بنایا ہم نے اس کو قُرْءٰنًا : قرآن عَرَبِيًّا : عربی لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ : تاکہ تم ، تم سمجھ سکو
کہ ہم نے اس کو قرآن عربی بنایا ہے تاکہ تم سمجھو
(43:3) جعلنہ : جعلنا ماضی کا سیغہ جمع متکلم جعل باب فتح مصدر۔ بمعنی کرنا ۔ بنانا۔ ٹھہرانا وغیرہ۔ یہ لفظ مندرجہ ذیل پانچ طرح پر استعمال ہوتا ہے :۔ (1) بمعنی صار ، طفق : اس صورت میں یہ بطور فعل لازم کے آتا ہے مثلا جعل زید یقول کذا زید یوں کہنے لگا۔ (2) بمعنی اوجد (یعنی ایجاد یا پیدا کرنا۔ اس صورت میں یہ فعل متعدی بیک مفعول استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً وجعل الظلمت والنور (6:1) اور اس نے اندھیرے اور روشنی بنائی۔ (3) ایک شے کو دوسری شے سے پیدا کرنا اور بنانا۔ مثلا وجعل لکم من انفسکم ازواجا (42:11) اس نے تمہارے لئے تمہار ہی جنس سے جوڑے بنائے ۔ (4) بمعنی تصییر۔ یعنی کسی شے کو ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرنا۔ جیسے الذی جعل لکم الارض فراشا واسلامء بناء (2:22) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا۔ اور آسمان کو چھت۔ یا انا جعلنہ قرانا عربیا (آیت ہذا) بیشک ہم نے اس کو قرآن عربی بنایا۔ (5) کسی چیز پر کسی چیز کے ساتھ حکم لگانا عام اس سے کہ وہ حکم حق ہو یا باطل۔ (ا) حق کی مثال :۔ انا رادوہ الیک وجاعلوہ من المرسلین (28:7) ہم اس کو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر) اسے پیغمبر بنادیں گے۔ (ب) باطل کی مثال :۔ وجعلوا للّٰہ مما زراء من الحرث والانعام نصیبا (6:36) اور (یہ لوگ) خدا ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے یعنی کھیتوں اور چوپائیوں سے خدا کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں۔ (راغب) ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب اس کا مرجع الکتب ہے۔ قرنا عربیا موصوف و صفت مل کر جعلنا کا مفعول ۔ بمعنی قرآن بزبان عربی۔ لعلکم تاکہ تم۔ لعل اصل میں حرف ترجی ہے۔ بمعنی شاید کہ۔ امید ہے کہ :۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حاکمانہ و شاہانہ طرف کلام کے مطابق یہ لفظ تعلیل و تحقیق کے لئے استعمال فرمایا ہے ۔ بمعنی کی۔ جیسا کہ آیت ہذا میں آیا ہے کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ تعقلون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ عقل (باب ضرب) مصدر سے (تاکہ) تم (اسکے مطالب کو) سمجھو۔ یہ آیت جواب قسم ہے۔
Top