Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 77
وَ نَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ١ؕ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ
وَنَادَوْا : اور وہ پکاریں گے يٰمٰلِكُ : اے مالک لِيَقْضِ : چاہیے کہ فیصلہ کردے عَلَيْنَا رَبُّكَ : ہم پر تیرا رب قَالَ اِنَّكُمْ : کہے گا بیشک تم مّٰكِثُوْنَ : تم یونہی رہنے والے ہو
اور پکاریں گے کہ اے مالک تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے وہ کہے گا کہ تم ہمیشہ (اسی حالت میں) رہو گے
(43:77) ناروا۔ ماضی (بمعنی مستقبل) جمع مذکر غائب۔ نداء مصدر (باب مفاعلۃ) وہ پکاریں گے۔ ضمیر فاعل الظلمین کی طرف راجع ہے وہ دوزخی کافر پکاریں گے۔ شدت عذاب سے پکار اٹھیں گے۔ ای من شدۃ العذاب (روح المعانی) یملک۔ یا حرف نداء مالک منادی۔ اے مالک : مالک ، دوزخ کے داروغہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ لیقض علینا ربک : لیقض فعل امر واحد مذکر حاضر۔ چاہیے کہ تمہارا رب ہمیں موت دیدے۔ اے مالک تمہارا پروردگار ہمیں موت دیدے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فوکزہ موسیٰ فقضی علیہ (18:5) اور موسیٰ نے اس کا مکا مارا اور اس کو جان سے مار دیا۔ اس کا کام تمام کردیا۔ تفسیر اضواء البیان میں ہے کہ لیقض میں لام ، لام الدعاء ہے اور مالک (خازن النار) سے سوال کرنے سے کفار کی مراد یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کی موت کی دعا کرے اگر ان کا ارادہ ازخود اللہ سے موت مانگنے کا ہوتا تو وہ مالک کو کیوں خطاب کرتے۔ ایسے ہی سورة المؤمن میں اہل النار دوزخ کے کو توالوں سے التجا کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے عذاب میں تخفیف کے لئے دعا کریں۔ وقال الذین فی النار لخزنۃ جھنم ادعوا ربکم یخفف عنا یوما من العذاب (40:49) اور جو لوگ آگ میں (جل رہے ) ہوں گے وہ دوزخ کے داروغوں سے کہیں گے کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ ایک دن تو ہم سے عذاب ہلکا کر دے۔ تفسیر بیضاوی میں ہے :۔ والمعنی سل ربنا ان یقضی علینا اپنے رب سے کہہ کہ ہمارا خاتمہ کر دے۔ قال : ای قال ملک (مالک داروغہ جہنم کہے گا) اگر قال کی ضمیر مالک کی طرف راجع ہے۔ مکثون۔ اسم فاعل جمع مذکر بحالت رفع مکث (باب نصر و کرم) مصدر ٹھہرے رہنے والے۔ باقی رہنے والے۔ مراد ہمیشہ رہنے والے۔ ٹھہرنے کے معنی میں قرآن مجید میں ہے فقال لاہلہ امکثوا انی الست نارا (20:10) تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا تم یہاں ٹھہرو۔ اور باقی رہنے کے معنی میں ہے۔ فاما الزبد فیذھب جفاء واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (13:17) سوجھاگ تو سوکھ کر زائل ہوجاتا ہے اور (پانی) جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے۔
Top