Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 20
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ١ۚ وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
وَعَدَكُمُ : وعدہ کیا تم سے اللّٰهُ : اللہ نے مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : غنیمتیں کثرت سے تَاْخُذُوْنَهَا : تم لوگے انہیں فَعَجَّلَ : تو جلددیدی اس نے تمہیں لَكُمْ : تمہیں هٰذِهٖ : یہ وَكَفَّ : اور روک دئیے اَيْدِيَ النَّاسِ : ہاتھ لوگوں کے عَنْكُمْ ۚ : تم سے وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً : اور تاکہ ہو ایک نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کیلئے وَيَهْدِيَكُمْ : اور وہ ہدایت دے تمہیں صِرَاطًا : ایک راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ تم ان کو حاصل کرو گے تو اس نے غنیمت کی تمہارے لئے جلدی فرمائی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لئے (خدا کی) قدرت کا نمونہ ہے اور وہ تم کو سیدھے راستے پر چلائے
(48:20) تاخذونھا : تاخذون مضارع جمع مذکر حاضر اخذ (باب نصر) مصدر ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب جو مغانم کی طرف راجع ہے۔ تم ان (غنیمتوں) کو لوگے۔ حاصل کرو گے۔ ان غنیمتوں کا اشارہ ان اموال غنیمت کی طرف اشارہ جو خٰبر کے بعد دوسری فتوحات کے سلسلہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔ فجعل :ترتیب کا ہے عجل ماضی واحد مذکر غائب تعجیل (تفعیل) مصدر اس نے جلدی کی۔ اس نے جلدی دیدی۔ عجلت بمعنی شتابی۔ جلدی۔ ھذا۔ اس سے فتح خیبر مراد ہے (تفسیر مظہری) ۔ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کو سورة کے آغاز میں فتح مبین قرار دیا گیا ہے (تفہیم القرآن) ۔ ھذہ ای مغانم خیبر۔ (روح المعانی) ۔ ھذہ کا مشار الیہ صلح حدیبیہ ہے۔ قالہ ابن عباس۔ عجل لکم صلح الحدیبیۃ۔ (ضیاء القرآن) فجعل لکم ھذہ۔ پس اس نے سردست تم کو بہ دے دی۔ (صلح حدیبیہ یا فتح خیبر اور اس کے اموال غنیمت) وکف ایدی الناس عنکم : واؤ عاطفہ، کیف ۔۔ عن۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ کف (باب نصر) مصدر۔ عن کے صلہ کے ساتھ کف عن (کسی کام سے) باز رکھنا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ایدی الناس مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول اول کف کا۔ اور لوگوں کے ہاتھوں کو باز رکھا تم سے۔ یعنی مخالفین کو تم پر حملہ آور ہونے سے روکا۔ اس میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) اہل خیبر اور ان کے حلیف بنی اسد۔ عظفان وغیرہ جب وہ اہل خیبر کی مدد کو آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب (خوف) ڈال دیا۔ اور وہ پلٹ گئے۔ (2) مجاہد کا قول ہے کہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے اہل مکہ کو کوئی معاندانہ اقدام کرنے سے روک دیا۔ (3) الطبری کا قول ہے کہ نبی کریم ﷺ کے مدینہ سے حدیبیہ یا خیبر کی طرف خروج سے اگرچہ مسلمانوں کی پوزیشن مدینہ میں ظاہرا کمزور تھی لیکن یہودی مسلمانوں کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھاسکے (روح المعانی) (4) جمہور کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ قریش مکہ باوجود مسلمانوں کی جنگی حالت تشویشناک حد تک کمزور ہونے کے ان پر حملہ آور ہونے یا ان کو لڑائی میں الجھانے سے باز رہے۔ ولتکون ایۃ للمؤمنین : واؤ عاطفہ، اس جملہ کا عطف محذوف پر ہے جو الکف کی علت ہے ای فعل ما فعل من التعجیل والکف لتکون نافعۃ لہم وایۃ لہم۔ بعض کے نزدیک واؤ زائدہ ہے۔ لام تعلیل کا ہے تکون مضارع واحد مؤنث غائب۔ کون (باب نصر) مصدر ضمیر فاعل برائے التعجیل والکف ہے۔ ایۃ نشانی۔ (خدا کی) قدرت کا نمونہ۔ ترجمہ :۔ اور اس تعجیل و الکف کی غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لئے (خدا کی) قدرت کا نمونہ بن جائے۔ ویھدیکم صراط مستقیما : اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ صراط مستقیما۔ موصوف و صفت مل کر مفعول یھدی کا۔ اور تاکہ وہ تم کو سیدھے راستہ پر چلائے۔
Top