Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
مومنو ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتں) تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر قرآن نازل ہونے کے زمانے میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے۔
ابدائ۔ مصدر۔ بدء مادہ۔ تسؤکم۔ وہ تم کو بری لگے۔ وہ تم کو ناخوش کرتی ہے۔ مضارع واحد مؤنث غائب ساء یسوء (نصر) سوء ۔ سوء سے مادہ سوئ۔ السوء ہر وہ چیز جو انسان کو غم میں مبتلا کر دے۔ خواہ وہ امور دنیوی کے قبیل سے ہو یا اخروی کے اور عام ہے اس سے کہ اس کا تعلق احوال نفسانیہ سے ہو یا مدنیہ سے یا ان امور خارجہ سے جن کا تعلق جاہ و جلال کے چلے جانے یا کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کے فوت ہوجانے سے ہوتا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ یا اس کے مشتقات بمعنی بیماری۔ رسوائی۔ برائی بھی آیا ہے۔ اس آیت کے ترجمے میں بعض نے ان تبدلکم تسؤکم۔ وان تسئلوا عنھا حین ینزل القرآن تبدلکم کو اکٹھا لیا ہے اور اسے اشیاء کی صفت لکھا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ ” اے ایمان والو ! مت پوچھ گچھ کیا کرو ایسی باتوں کے متعلق کہ اگر تم پر عیاں کردی جائے ان کی حقیقت تو تمہاری باگواری یا تنگی کا باعث بنیں۔ اور اگر اس وقت دریافت کی جائیں جب قرآن نازل ہو رہا ہو تو تم پر ان کی وضاحت کردی جاتی “۔ (یعنی احکام الٰہی کے سمجھنے میں جو تمہیں مشکلات یا دقتیں درپیش ہوتیں ان کی وضاحت کردی جاتی) ۔ اس ترکیب کو صاحب مدارک التنزیل اور مولانا محمد علی نے لیا ہے ۔ دوسروں کے نزدیک یایھا الذین امنوا ۔۔ تسوء کم۔ اور وان تسئلوا ۔۔ تبدلکم کو الگ الگ لیا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا۔ اے ایمان والو ! ایسی باتیں مت پوچھا کرو کہ اگر ظاہر کی جائیں تو تمہارے لئے تنگی کا باعث بنیں (جیسے قوم موسیٰ (علیہ السلام) نے گائے کے متعلق سوال کر کرکے اپنے اوپر دائرہ اختیار تنگ کرلیا تھا (دیکھو 2:68-71) (ہاں) اگر تم ایسی باتیں جب قرآن نازل ہو رہا ہو (تو کسی مشکل یا دقیق امر کو سمجھنے کی خاطر) دریافت کرو تو وہ تم پر واضح کردی جاتیں۔ (اسے الخازن، ضیاء القرآن ۔ اور تفسیر عبد اللہ یوسف علی میں اختیار کیا گیا ہے) عفا اللہ عنھا۔ کہ بھی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) ایک تو یہ کہ اس بارے میں تم نے جو اب تک کیا ہے اسے اللہ نے معاف کردیا ہے ۔ (مدارک التنزیل۔ الخازن۔ تفہیم القرآن) (2) یعنی جب قرآن کے کسی حکم کے نزول کے وقت تم نے وضاحت کی خاطر سوال کئے تو خدا تمہیں یہ معاف کر دے گا (عبد اللہ یوسف علی)
Top