Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
(وہ دن یاد رکھنے کے لائق ہے) جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا ؟ وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ تو ہی غیب کی باتوں سے واقف ہے۔
(5:109) ماذا احبتم۔ تمہیں کیا جواب دی اگیا۔ اجابۃ جس کے معنی جواب دینے کے ہیں۔ ماضی مجہول جمع مذکر حاضر۔ یعنی جب تم نے لوگوں کو دین حق کی دعوت دی تو اس کے رد عمل میں ان کا کیا جواب تھا۔ انہوں نے کہاں تک اسے قبول کیا اور کہاں تک اس کے منکر ہوئے۔ لاعلم لنا۔ ہمیں کوئی علم نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو سرے سے اس بات کا علم ہی نہ تھا۔ کہ ان کی تبلیغ کا کیا اثر ہوا۔ اس جواب کی مختلف وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ (1) یہ کہ یوم حشر کی ہولناکی کی وجہ سے مخاطبین دین حق کے رد عمل کا مفصل بیان بڑا مشکل ہوگا۔ (2) یہ کہ کمال انکساری کی وجہ سے ۔ کہ اے خدا ہمارا علم تیرے علم کے مقابلہ میں اس قدر حقیر اور نامکمل ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ امام فخر الدین رازی (رح) فرماتے ہیں کہ :۔ ” قالوا لاعلم لنا لانک تعلم ما اظھروا وما اضمروا ونحن لانعلم الا ما اظھروا نعلمک فیہم انفذ من علمنا فلھذا المعنی نفوا العلم من انفسہم لان علیہم عند اللہ کلاعلم۔ (انہوں نے) جواب دیا (اے اللہ) تو ان کے (مخاطبین کے) ظاہر اور باطن کو جانتا ہے۔ اور ہم ان کے ظاہر کو جانتے ہیں۔ تیرا علم ان کے بارے میں ہمارے علم سے کہیں زیاد عمیق اور رقیق ہے بدین وجہ انہوں نے اپنی طرف سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کیونکہ ان کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے سامنے نہ ہونے کے برابر ہے۔ (3) یہ کہ ہمارا علم نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ہم اپنی زندگی میں ان کے ظواہر سے باخبر رہے لیکن مرنے کے بعد ہمیں کوئی علم نہیں کہ انہوں نے کیا کیا عمل کئے اور ان کا رد عمل کیا رہا۔ اس کا علم تو ہی رکھتا ہے۔ ایسا ہی جواب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے آیت 5:117 میں دیا۔ وکنت علیہم شھیدا ما دمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم۔ میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا ۔ علام۔ علم سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ خوب جاننے والا۔ علام الغیوب۔ ایسا زبردست جاننے والا جو ہر طرح کی معلومات کا ان کے گوناگوں ہونے کے باوجود علم رکھتا ہو۔ جو اب موجود ہے اسے بھی جانتا ہے جو آئندہ ہوگا اسے بھی جانتا ہے جو ظاہر ہے اسے بھی جانتا ہے اور جو پوشیدہ ہے اسے بھی۔ جو تھا۔ جو ہے۔ جو ہوگا سب کچھ جانتا ہے۔
Top