Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 75
مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌ١ؕ كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ
مَا : نہیں الْمَسِيْحُ : مسیح ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم اِلَّا : مگر رَسُوْلٌ : رسول قَدْ خَلَتْ : گزر چکے مِنْ قَبْلِهِ : اس سے پہلے الرُّسُلُ : رسول وَاُمُّهٗ : اور اس کی ماں صِدِّيْقَةٌ : صدیقہ (سچی۔ ولی) كَانَا يَاْكُلٰنِ : وہ دونوں کھاتے تھے الطَّعَامَ : کھانا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسے نُبَيِّنُ : ہم بیان کرتے ہیں لَهُمُ : ان کے لیے الْاٰيٰتِ : آیات (دلائل) ثُمَّ : پھر انْظُرْ : دیکھو اَنّٰى : کہاں (کیسے يُؤْفَكُوْنَ : اوندھے جارہے ہیں
مسیح ابن مریم تو صرف (خدا کے) پیغمبر تھے۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے۔ اور ان کی والدہ (مریم خدا کی ولی اور) سچّی فرماں بردار تھیں۔ دونوں (انسان تھے اور) کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو ہم ان لوگوں کے لئے اپنی آیتیں کس طرح کھول کھول کر بیان کرتے ہیں پھر (یہ) دیکھو کہ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔
(5:75) انی یؤفکون ۔ انی جہاں۔ کیونکر ۔ جب ۔ اسم ظرف زمان و مکان۔ ظرف زمان ہو تو بمعنی متی (جب۔ جس وقت) ظرف مکان ہو تو بمعنی این۔ (جہاں ۔ کہاں) اور استفہامیہ ہو تو بمعنی کیف۔ (جیسے۔ کیونکر۔ یؤفکون مضارع مجہول جمع مذکر غائب افک سے۔ (باب ضرب) پھیرے جاتے ہیں۔ بھٹک رہے ہیں۔ الٹے پھر رہے ہیں۔ افک۔ جھوٹ۔ بہتان۔ کسی شے کا اس کی اصلی جانب سے منہ پھیرنے کا نام افک ہے۔ پس جو بات اپنی اصلی صورت سے پھر گئی اس کو افک کہیں گے۔ جھوٹ اور بہتان میں چونکہ یہ صفت بدرجہ تم موجود ہے اس لئے ان کو افک کہا گیا ہے۔ بعض دفعہ فعل مجہول اس لئے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ظاہر کیا جاسکے کہ فاعل نے فعل کو اس تیزی سے اور اندھا دھند کیا۔ گویا اس کا فعل اس کے اختیار سے باہر تھا۔ یا اس کے پس پشت محرک فعل کی شدت کو ظاہر کرنے کے لئے۔ اس کی دیگر مثالیں۔ وجاء ہ قومہ یھرعون الیہ (11:78) اور اس کی قوم اس کی طرف بھگ ٹٹ دوڑ کر آئی۔ اور وابقی السحرۃ سجدین (7:120) اور جادوگر (بےاختیار) سجدے میں گرپڑے۔
Top