Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 93
لَیْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْۤا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک جُنَاحٌ : کوئی گناہ فِيْمَا : میں۔ جو طَعِمُوْٓا : وہ کھاچکے اِذَا : جب مَا اتَّقَوْا : انہوں نے پرہیز کیا وَّاٰمَنُوْا : اور وہ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک ثُمَّ اتَّقَوْا : پھر وہ ڈرے وَّاٰمَنُوْا : اور ایمان لائے ثُمَّ : پھر اتَّقَوْا : وہ ڈرے وَّاَحْسَنُوْا : اور انہوں نے نیکو کاری کی وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے۔ جبکہ انہوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور نیک کام کئے پھر پرہیز کیا اور ایمان لائے پھر پرہیز کیا اور نیکوکاری کی۔ اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔
(5:93) اس آیۃ میں الفاظ امنوا ۔ عملوا الصلحت۔ اتقوا۔ بہ تکرار استعمال ہوئے ہیں بعض کے نزدیک یہ تکرار تاکید و مبالغہ کے لئے ہے اور ایمان و تقویٰ اور ان پر مزید درجۂ احسان حاصل کرنے کے لئے ابھارنے اور جوش دلانے کے لئے ہے۔ اور بعض کے نزدیک علی الذین کے متصل امنوا وعملوا الصلحت زمانہ ماضی کے متعلق ہے یعنی وہ لوگ جو صاحب ایمان تھے اور نیک اور صالح اعمال کے حامل تھے اگر حرمت سے پہلے انہوں نے میسرو انصاب وازلام سے کام لیا تو ان کو وہ معاف ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اذا ما شرط کے لئے ہے اور اس سے متصل اتقوا وامنوا وعملوا الصلحت مستقبل کے لئے ۔ یعنی بشرطیکہ وہ آئندہ بھی ڈرتے رہیں گے ان چیزوں سے جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں گے اور اچھے کام کریں گے۔ پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رکیں۔ اور جو فرمان الٰہی ہو اسے مانیں پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ اختیار کریں (الخازن۔ تفہیم القرآن) صاحب ضیاء القرآن اور عبد اللہ یوسف علی علامہ بیضاوی کی تشریح نقل کی ہے کہ فرماتے ہیں۔ ان مکرر الفاظ سے صحابہ کرام کی تین حالتوں یا ان کے تین مقامات کا ذکر کیا جارہا ہے پہلے اتقوا وامنوا سے ان کے تقویٰ اور ایمان کی اس حالت کا بیان ہے جس کا تعلق ان کے اپنے قلب اور روح کے ساتھ ہے۔ دوسرے اتقوا وامنوا سے ان کے تقویٰ اور ایمان کی اس کیفیت کا بیان ہے جو ان کے اور دوسرے لوگوں کے درمیان تھی اور آخری اتقوا واحسنوا سے تقویٰ اور احسان کی اس حالت کی طرف اشارہ ہے جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان تھی۔ یا پہلے ان کے ابتدائی مقام کی طرف اشارہ ہے۔ پھر ان کے درمیانی حالت کی طرف اور آخر میں ان کے اعلیٰ ترین مقام کی طرف جب کہ عابد و معبود۔ ساجد مسجود میں دوری کے پردے اٹھ جاتے ہیں اور نعمت مشاہدہ سے دل کی آنکھیں روشن ہوتی ہیں اسی لئے اتقوا واحسنوا فرمایا۔ جب کہ انسان مقام احسان پر فائز ہوتا ہے اور احسان کا مفہوم حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔ ؎ ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ یعنی احسان اس کیفیت کو کہتے ہیں جب کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر (حاکت عبادت میں) تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔
Top