Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 28
فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ١ؕ وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ
فَاَوْجَسَ : تو اس نے محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً ۭ : ڈر قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ ۭ : تم ڈرو نہیں وَبَشَّرُوْهُ : اور انہوں نے بشارت دی بِغُلٰمٍ : ایک بیٹے کی عَلِيْمٍ : دانش مند
اور دل میں ان سے خوف معلوم کیا (انہوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجئے اور انکو ایک دانشمند لڑکے کی بشارت بھی سنائی
(51:28) فاوجس :عاطفہ ۔ سببیہ ہے اوجس ماضی واحد مذکر غائب، ایجاس (افعال) مصدر بمعنی دل میں محسوس کرنا۔ قلب میں پوشیدہ آواز پانا۔ اس نے محسوس کیا۔ خیفۃ : خوف، ڈر، خاف یخاف کا مصدر ہے ۔ (باب فتح) بوجہ مفعول ہونے کے منصوب ہے ۔ قالوا ۔ یعنی مہمانوں نے کہا۔ لا تخف فعل نہی واحد مذکر حاضر خوف باب فتح مصدر۔ تو نہ ڈر۔ خوف مت کہا۔ بشروہ۔ ماضی جمع مذکر غائب تبشیر (تفعیل) مصدر۔ خوش خبری دینا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب، جس کا مرجع حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ ان مہمانوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دی۔ بغلام علیم : غلام علیم : موصوف وصفت۔ صاحب علم بیٹے کی۔ فائدہ : قبائلی زندگی میں ایک دستور تھا۔ کہ اگر مہمان ضیافت قبول کرلیتا۔ تو سمجھا جاتا کہ اس کا آنا خیر سے ہوا ہے لیکن اگر وہ کھانا کھانے سے انکار کر دے تو سمجھ لیا جاتا کہ کسی بری نیت سے یہاں آیا ہے۔ جب فرشتوں نے کھانا کھانے کے لئے ہاتھ نہ بڑھائے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک گونہ خوف، خدشہ محسوس ہونے لگا۔ مہمانوں نے صورت حال بھانپ لی اور میزبان کی تسلی کے لئے کہا کہ خوف مت کھائیے ہم اللہ کے فرستادہ ہیں اور حضرت لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے حضرت ابراہیم کو ایک بیٹے کی خوشخبری دی خداوند کریم کی طرف سے۔ یہ فرزند ارجمند جو خدا نے عنایت فرمایا حضرت اسحاق (علیہ السلام) تھے۔
Top