Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 44
فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَ
فَعَتَوْا : تو انہوں نے سرکشی کی عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ : اپنے رب کے حکم سے فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ : تو پکڑ لیا ان کو ایک کڑک نے وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ : اور وہ دیکھ رہے تھے
تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی سو ان کو کڑک نے آپکڑا اور وہ دیکھ رہے تھے
(51:44) فعتوا۔تفعیل کے لئے ہے عتوا ماضی جمع مذکر غائب عتو (باب نصر) مصدر بمعنی اطاعت سے اکڑنا۔ تکبر کرنا۔ اور حد سے بڑھ جانا۔ مگر انہوں نے تکبر اور غرور کے ساتھ (اپنے رب کے حکم کی تعمیل سے) سرتابی کی۔ فاخذتھم :عطف سببی کا ہے۔ اخذت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ ضمیر فاعل کا مرجع الصعقۃ ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ۔ پس صاعقہ نے ان کو آلیا۔ الصعقۃ : امام راغب (رح) لکھتے ہیں :۔ الصاعقۃ اور الصادقۃ دونوں کے تقریباایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ہولناک دھماکہ، لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں ۔ بعض ایک لغت نے کہا ہے صاعقہ تین قسم پر ہے :۔ اول : بمعنی موت اور ہلاکت، جیسے فرمایا : فصعق من فی السموت ومن فی الارض (39:68) تو جو لوگ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب مرجائیں گے : یا فاخذتھم الصعقۃ (51:44) سو ان کو موت نے آپکڑا۔ دوم : بمعنی عذاب جیسے فرمایا کہ فقل انذرتکم ص (علیہ السلام) قۃ مثل صعقۃ عاد وثمود (41:13) میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ (عذاب) آیا تھا۔ سوم : بمعنی آگ اور بجلی کی کڑک، جیسے فرمایا :۔ ویرسل الصواعق فیصیب بھا من یشاء (13:13) اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقۃ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو فضاء میں سخت آواز کے ہیں۔ پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار میں سے ہیں۔ وہم ینظرون۔ جملہ حالیہ ہے درآں حالیکہ وہ دیکھ رہے تھے۔ یعنی دیکھ رہے تھے اور اس کی مدافعت میں کچھ نہ کر رہے تھے۔ تفسیر کبیر رازی میں ہے کہ :۔ بمعنی تسلیمہم وعدم قدرتھم علی الدفع کما یقول القائل للمضروب یضربک فلان وانت تنظر : اس کا مطلب ہے کہ ہتھیار ڈال دینا اور مدافعت کی قدرت نہ رکھنا۔ جیسا کہ کوئی مضروب سے کہے کہ وہ تمہیں پیٹ رہا ہے اور تم کھڑے دیکھ رہے ہو ؟ یعنی مدافعت میں کچھ بھی نہیں کر رہے) مضروب کی بےبسی کی انتہاء ہے۔ اسی معنی میں قرآن مجید میں اور جگہ فرمایا فاخذتکم الصعقۃ وانتم تنظرون (2:55)
Top