Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 59
فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِهِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ
فَاِنَّ لِلَّذِيْنَ : تو بیشک ان لوگوں کے لیے ظَلَمُوْا : جنہوں نے ظلم کیا ذَنُوْبًا مِّثْلَ : حصہ ہے، مانند ذَنُوْبِ : حصے کے اَصْحٰبِهِمْ : ان کے ساتھیوں کے فَلَا يَسْتَعْجِلُوْنِ : پس نہ وہ جلدی کریں مجھ سے
کچھ شک نہیں کہ ان ظالموں کے لئے بھی (عذاب کی) نوبت مقرر ہے، جس طرح ان کے ساتھیوں کی نوبت تھی تو ان کو مجھ سے (عذاب) جلدی نہیں طلب کرنا چاہئے
(51:59) فان :عاطفہ ان حرف تحقیق ہے۔ بےشک، یقینا، تحقیق۔ للذین ظلموا۔ لام اختصاص کا ہے۔ الذیناسم موصول جمع مذکر، صلہ۔ جنہوں نے ظلم کیا۔ جنہوں نے اپنے رسول کی تکذیب کی ذنوبا : ان کا اسم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ذنوب اصل میں بڑے ڈول کو کہتے ہیں جس سے کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے۔ عربوں کی عادت تھی کہ کنووں اور کھایوں کا پانی ڈول سے تقسیم کیا کرتے تھے۔ ڈول کے ذریعہ پانی تقسیم کرنے میں الراجز کا شعر ہے لنا ذنوب ولکم ذنوب فان ابیتم فلنا القلیب (ہمارے تمہارے درمیان پانی کی تقسیم ) ایک ڈول تمہارا اور ایک ڈول ہمارا ہے۔ اگر تم یہ نہیں مانتے تو ساری کی ساری کجایء (یا کنواں) ہماری ہے۔ اس سے ذنوب یعنی الدلو (ڈول) کا اطلاق نصیب یعنی حصہ پر ہونے لگا۔ اصحابھم : مضاف مضاف الیہ۔ ان کے ساتھی۔ ان کے ہم مشرب۔ یعنی وہ گذشتہ زمانہ کے لوگ جنہوں نے اپنے رسول کی نافرمانی کی اور ان کی تکذیب کی اور ان کی تکذیب کے مرتکب ہوئے۔ ہم کی ضمیر قریش مکہ کی طرف راجع ہے۔؎ اضواء القران میں ہے :۔ معنی الایۃ الکریمۃ۔ فان للذین ظلموا بکتذیب النبی ﷺ ذنوبا ای نصیبا من عذاب اللہ مثل ذنوب اصحابھم من الامم الماضیۃ من العذاب لما کذبوا رسلہم۔ تحقیق ان ظالموں کے لئے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی تکذیب کی خدا کے عذاب سے ویسا ہی حصہ ہے جیسا کہ ان کے ساتھیوں یا ہم مشربوں کا تھا جو گذشتہ امتوں میں اپنے رسولوں کی تکذیب کے مرتکب ہوئے۔ لایستعجلون : مضارع منفی جمع مذکر غائب استعجال (استفعال) مصدر۔ جلدی مچنا۔ کسی چیز کے جلد واقع ہونے کی طلب کرنا۔ اصل لا یستعجلوننی وہ مجھ سے (اس عذاب کے آجانے کی) جلدی طلب نہ کریں۔ (یہ عذاب تو ان کے نصب میں ہوچکا ۔ اور اپنے وقت پر آکر رہے گا) کافر جو کہتے تھے۔ متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین یہ ان کو اس کا جو اب ہے ۔
Top