Anwar-ul-Bayan - At-Tur : 21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے وَاتَّبَعَتْهُمْ : اور پیروی کی ان کی ذُرِّيَّتُهُمْ : ان کی اولاد نے بِاِيْمَانٍ : ایمان کے ساتھ اَلْحَقْنَا بِهِمْ : ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد کو وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ : اور نہ کمی کریں گے ہم ان کے مِّنْ عَمَلِهِمْ : ان کے عمل میں سے مِّنْ شَيْءٍ ۭ : کچھ بھی كُلُّ امْرِی : ہر شخص بِمَا كَسَبَ : ساتھ اس کے جو اس نے کمائی کی رَهِيْنٌ : رھن ہے۔ گروی ہے
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہِ ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے
(52:21) والذین امنوا۔ الموصول ، مبتدا۔ الحقنا بھم ذریتھم اس کی خبر۔ واتبعتھم ذریتھم جملہ معترضہ، الحقنابھم کی تعلیل کے لئے۔ یا یہ معطوف ہے اور اس کا عطف الذین امنوا پر ہے۔ بایمان متعلق اتباع۔ ما التنھم۔ ماضی منفی جمع متکلم ۔ الہ۔ الت۔ ایلاۃ والاتۃ (باب ضرب) مصدر۔ حقہ حق کو کم کرکے دینا۔ ہم ان کا حق ان کو کم کرکے نہیں دیں گے۔ ہم ان کے حق میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔ اگر ما موصولہ لیا جائے تو ترجمہ ہوگا : بیشک جو پرہیزگار ہیں باغوں میں چین کرتے ہوں گے ان چیزوں سے جو ان کو ان کے رب نے عطا کیں اور ان کا رب ان کو عذاب دوزخ سے بچادے گا۔ (آیات 1-18) تفسیر حقانی۔ فائدہ : اللہ تعالیٰ جنت میں بھی داخل فرمائے گا اور انہیں عذاب جہنم سے بچا لے گا۔ اس کا علیحدہ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عذاب درزخ سے بچنا محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر موقوف ہے ورنہ انسان کے اعمال تو اس قابل ہی نہیں کہ دوزخ سے بچنے کی ضمانت بن سکیں : ہم جو نیک اعمال کرتے ہیں ان میں بھی ایسی ایسی خامیاں اور کمزورہاں پائی جاتی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے قبول نہ فرمائے تو ان کی حیثیت ایک کھوٹے سکے سے زیادہ نہ ہوگی۔ یہ تو صرف اس کی مہربانی ہے کہ وہ ہماری ناقص عبادتوں کو شرف قبولیت سے نواز دے اور ہمیں جہنم سے بچالے۔ (ضیاء القرآن) کلوا واشربوا ھنیا۔ ای قیل لہم : کلوا واشربوا ۔۔ کلوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اکل (باب نصر) مصدر اصل میں اء کلوا تھا ۔ تم کھاؤ۔ اکل کے حقیقی معنی کھانے کے ہیں ۔ مجازا مندرجہ ذیل معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) آگ کا لکڑی کو بالکل جلا دینا۔ اکلت النار الحطب۔ آگ نے ایندھن کو کھالیا۔ (2) کسی کی غیبت کرنا۔ ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتا (49:12) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھوئے۔ یعنی غیبت کرے۔ (3) ناجائز طور پر کسی کا مال لے لینا ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل (4:29) آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طور پر نہ لو واشربوا۔ واؤ عاطفہ۔ اشربوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر شرب (باب سمع) مصدر تم پئو۔ ھنیئا۔ ھناء مصدر (باب فتح، نصر، ضرب) سے صفت مسبہ کا صیغہ ہے پاکیزہ، خوش مزہ۔ اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ کلوا واشربوا اکلا شربا ھنیئا۔ تم مزے لے لے کر خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پئو۔ اس صور میں بطور مفعول مطلق ہوگا۔ کیونکہ مصدر کی صفت میں آیا ہے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب آیت ہذا میں ہر جگہ الذین امنوا کے لئے ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی ذریت ایمان میں ان کے پیرو ہوئی تو ان کے ساتھ ان کی ذریت کو بھی ہم ملا دیں گے۔ ذریعۃ کے اصل معنی چھوٹی اولاد کے ہیں مگر یہ عرف میں مطلق اولاد پر یہ لفظ بولا جاتا ہے اصل میں یہ لفظ جمع ہے لیکن واحد جمع دونوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے ذریعۃ بعضہا من بعض (3:34) ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے۔ اس کے اشتقاق کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) یہ ذرء سے مشتق ہے جس کے معنی پیدا کرنے اور پھیلانے کے ہیں۔ اور اس کی ہمزہ متروک ہوگئی ہے۔ جیسے رویۃ اور بریۃ میں۔ قرآن مجید میں ہے ولقد ذرانا لجہنم (7:179) اور ہم نے پیدا کئے جہنم کے لئے۔ (2) اس کی اصل ذرء یۃ بروزن فعلیۃ ہے۔ (3) یہ ذر سے مشتق ہے جس کے معنی بکھیرنے کے ہیں۔ ذر (باب نصر) مصدر سے بمعنی (اللہ کا اپنے بندوں کو زمین میں) پھیلا دینا ذریۃ کی جمع ذریت ہے قرآن مجید میں ہے ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین (26:74) اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی (راہ) ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے۔ اور ان کے (یعنی مؤمنین کے) اعمال میں سے کچھ (اجر) کم نہ کریں گے۔ کل امری بما کسب رھین : یہ جملہ ماقبل کی تعلیل ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے اعمال میں اسیر ہے۔ ای کل انسان مرھون ای محبوس اواسیر بکسبہ الباطل۔ ہر شخص اپنے اعمال باطل کے عوض مرہون ہے جب تک ان اعمال باطل سے ان کی سزا پاکر، یا اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات سے ان کی مغفرت پاکر اپنے آپ کو اس رہن سے فک نہیں کرا لیتے وہ اس میں محبوس رہے گا۔ (اور متذکرہ بالا) رعائیتی نعمت حاصل کرنے کا مستحق نہ ہوگا۔ بہرکیف اس میں ایمان کا ہونا شرط ہے : خداوند تعالیٰ کا اس اولاد کو اس رہن سے خلاص ہونے کے بعد رفعت درجات عطا کرکے ان کے آباء کے ساتھ ملا دینا محض اس کا تفضل ہے اور احسان ہے۔ بما میں ب سببیہ ہے ما موصولہ کسب صلہ۔ رھین۔ گروی۔ گرفتار۔ رھن سے جس کے معنی گروی ہونے کے ہیں۔ بروزن فعیل بمعنی مفعول ۔ مرھون ہے۔
Top