Anwar-ul-Bayan - At-Tur : 32
اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِهٰذَاۤ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ
اَمْ تَاْمُرُهُمْ : یا حکم دیتی ہیں ان کو اَحْلَامُهُمْ : ان کی عقلیں بِھٰذَآ : اس کا اَمْ هُمْ : یا وہ قَوْمٌ طَاغُوْنَ : لوگ ہیں سرکش
کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سکھاتی ہیں ؟ بلکہ یہ لوگ ہیں ہی شریر
(52:32) ام تامرہم احلامہم بھذا : ام کیا تامرھم۔ تامر مضارع واحد مؤنث غائب۔ امر (باب نصر) مصدر ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کا مرجع کفار مکہ ہیں۔ احلامہم مضاف مضاف الیہ ۔ ان کی عقلیں۔ احلام حلم کی جمع جس کے معنی بردباری کے ہوتے ہیں اور چونکہ بردباری عقل کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے حلم کے معنی عقل کے بھی لے لیتے ہیں گویا مسبب بول کر سبب مراد لیتے ہیں ۔ اور جگہ قرآن مجید میں احلام بمعنی خواب بھی آیا ہے مثلاً قالوا اضغاث احلام (12:44) انہوں نے کہا کہ یہ تو پریشان سے خواب ہیں۔ بھذا۔ میں اشارہ کفار مکہ کی مختلف و متضاد باتوں کی طرف ہے یعنی کبھی کہنا کہ کاہن ہے پھر کہنا کہ مجنون ہے اور کبھی کہنا کہ یہ شاعر ہے وغیرہ وغیرہ۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا ان کی عقلیں ان (متضاد اقوال) کا ان کو حکم دے رہی ہیں ؟ ام ہم قوم طاغون : یا یہ لوگ ہی شریر ہیں۔ یہاں ام بمعنی بل بطور حرف اضراب آیا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ یہ اقوال وہ کسی سمجھ یا عقل کی بناء پر کہہ رہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہی طاغون ہیں۔ طاغون نافرمان ۔ سرکش ۔ شریر۔ معصیت میں حد سے بڑھ جانے والے۔ طغیان سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر۔ طاغی کی جمع۔
Top