Anwar-ul-Bayan - At-Tur : 6
وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِۙ
وَالْبَحْرِ : اور سمندر کی الْمَسْجُوْرِ : جو موجزن ہے
اور ابلتے ہوئے دریا کی
(52:6) والبحر المسجور۔ اس کی ترکیب بھی ویسی ہی ہے جیسے آیت سابقہ کی۔ اور قسم ہے البحر المسجور کی۔ المسجور اسم مفعول واحد مذکر سجر (باب نصر) مصدر۔ (پانی کا دریا کو) بھرنا۔ البحر سے کونسا سمندر مراد ہے بعض کے نزدیک اس سے مراد دنیوی سمندر ہی ہے جسے ہم دیکھتے اور جانتے ہیں۔ بعض نے اس سے مراد وہ سمندر لیا ہے جو پر عرش عظیم ہے۔ ابو داؤد نے حضرت احنف بن قیس سے ایک طویل حدیث بیان کی ہے۔ اسی طرح المسجور سے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں :۔ (1) مسجور۔ بمعنی مملو، پر، بھرا ہوا۔ جیسے کہتے ہیں سجرت الاناء بالماء میں نے برتن کو پانی سے بھر دیا ۔ (2) مسجور بمعنی موقد بھڑکا یا ہوا۔ چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ سمندر کو قیامت کے دن بھڑکا کر آتش دوزخ میں اضافہ کیا جائے گا۔ قرآن مجید میں ہے ثم فی النار یسجرون (40:72) پھر آگ میں جھونکے جائیں گے۔ اور جگہ فرمایا اذا البحار سجرت (81:6) اور جس وقت دریا آگ میں جائیں گے۔ خواجہ حسن بصری (رح) نے اس کے معنی یہ کئے ہیں :۔ جب دریا آگ سے بھڑکا دئیے جائیں گے ۔ (3) حضرت ابن عباس سے ایک روایت ہے کہ مسجور بمعنی محبوس ہے روکا ہوا۔ کہ سمندر کو قدرت خداوندی نے روک رکھا ہے کہ وہ تمام زمین پر نہیں بہتا ورنہ سب کو غرق کردیتا ۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے ما من یوم الا والبحر یستاذن ربہ ان یغرق بنی ادم : کوئی دن بھی ایسا نہیں آتا جب کہ سمندر اپنے رب سے بنی آدم کو غرق کردینے کی اجازت نہ چاپتا ہو۔ مذکورہ بالا اقوال سے قوی قول یہ ہے کہ المسجور بمعنی موقد (بھڑکا یا ہوا ) ہے۔
Top