Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 17
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى
مَا زَاغَ الْبَصَرُ : نہیں کجی کی نگاہ نے وَمَا طَغٰى : اور نہ وہ حد سے بڑھی
ان کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ (حد سے) آگے بڑھی
(53:17) ما زاغ البصر وما طغی : ما نافیہ ہے زاغ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ زیغ (باب ضرب) مصدر۔ بہکنا۔ کج ہونا۔ راہ راست سے بہک جانا۔ ان کی آنکھ (اپنے نصب العین سے نہ ہٹی) ۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا (3:8) اے ہمارے پروردگار ! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر۔ وما طغی۔ واؤ عاطفہ ما نافیہ ہے طغی ماضی واحد مذکر غائب ۔ طغیان (باب نصر، سمع) مصدر۔ اور نہ وہ حد سے نکل گئی۔ جب نگاہ اپنی حد سے گزر جاتی ہے تو بہک جاتی ہے۔ اسی طرح جب پانی اپنی حد سے متجاوز ہوتا ہے تو طغیانی آجاتی ہے۔ یہاں طغی کا استعمال اسی اعتبار سے ہے۔ علامہ مودودی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔ ایک طرف رسول اللہ ﷺ کے کمال تحمل کا یہ حال تھا کہ ایسی زبردست تجلیات کے سامنے بھی آپ کی نگاہ میں کوئی چکا چوند پیدا نہ ہوئی اور آپ پورے سکون کے ساتھ ان کو دیکھتے رہے۔ دوسری طوف آپ کے ضبط اور یکسوئی کا کمال یہ تھا کہ جس مقصد کے لئے بلایا گیا تھ اسی پر آپ نے اپنی نگاہ اور اپنے ذہن کو مرکوز کئے رکھا ۔ اور جو حیرت انگیز مناظر وہاں تھے ان کی طرف آپ نے نگاہ ہی نہ اٹھائی۔
Top